آیات 1 - 3
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ قریش

اس سورۃ کا نام قُرَیۡشٍ اس لفظ کا پہلی آیت میں ذکر آنے کے وجہ سے مقرر ہوا۔

یہ سورۃ بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی۔ آیات کی تعداد چار ہے۔

مکہ ایک بے آب و گیاہ خشک وادی میں آباد ہے۔ یہاں کے لوگوں کی معیشت کا دار ومدار یمن اور شام سے تجارت پر قائم تھا۔ گرمیوں میں یہ لوگ شام کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف بغرض تجارت سفر کرتے تھے۔

قریش والوں کو ایک تو کعبہ کی وجہ سے دوسرا ابرھہ کے حملے کی ناکامی کی وجہ سے تجارت کے لیے آنے جانے کے مختلف راستوں میں امن بلکہ تعاون حاصل تھا۔ اس آیت میں ان دو باتوں کی طرف اشارہ ہے کہ جس رب نے تمہیں تجارت کے ذریعے بھوک کے عذاب سے بچایا اور ابرھہ کو نابود کر کے امن دیا اس کی بندگی کرو۔ اس سے سورۃ الفیل اور سورۃ القریش میں ربط کا بھی علم ہو جاتا ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ ۙ﴿۱﴾

۱۔قریش کو مانوس رکھنے کی خاطر،

اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَ الصَّیۡفِ ۚ﴿۲﴾

۲۔ انہیں (ان کے ذریعہ معاش) جاڑے اور گرمی کے سفروں سے مانوس رکھنے کی خاطر،

فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾

۳۔ چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں،

تشریح کلمات

قُرَیۡشٍ:

ابن عباس سے پوچھا گیا کہ قریش کو قریش کیوں کہتے ہیں؟ کہا: قریش سمندر کے ایک بہت بڑے جانور کا نام ہے۔ اس کے سامنے جو آئے وہ اسے ہڑپ کر لیتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ لِاِیۡلٰفِ: ایلاف ، الفت سے ہے۔ قریش کے لوگوں نے تجارت کی خاطر اپنے گرد و پیش کے قبائل اور حکومتوں سے راہ و رسم اور روابط قائم کیے تھے اس لیے انہیں اصحاب الایلاف کہا جانے لگا اور یہ الفت قائم کرنے والوں کے معنوں میں ہے۔

اس کا تاریخی منظر کچھ اس طرح ہے کہ عبدمناف قریش کے سردار تھے۔ ان کے چار بیٹے تھے: ہاشم، عبد شمس، مطلب اور نوفل۔ ان میں ہاشم نے بین الاقوامی تجارت میں حصہ لینے کا عزم کیا۔ اس تجارت میں جو بلاد قریش اور شام و مصر کے درمیان ہوتی تھی۔ قریش والوں کو یہ سہولت بھی حاصل تھی کہ دوسرے عرب قبائل کی بہ نسبت بیت اللہ کے خدام ہونے کی وجہ سے راستے کے تمام قبائل قریش کا بہت احترام کرتے تھے۔ ان تمام قبائل سے مانوس ہونے کی وجہ سے پورے راستے میں امن حاصل تھا اور وہ ان سے کوئی ٹیکس بھی وصول نہیں کرتے جب کہ دوسرے قبائل سے وصول کرتے تھے۔ حضرت ہاشم نے اپنے دیگر بھائیوں کو بھی اس تجارت میں شامل کیا۔

اس تجارت کی وجہ سے مکہ جزیرۃ العرب کا ایک اہم تجارتی مرکزبن گیا اور قریش مال و دولت میں بھی سب سے آگے نکل گئے۔

۲۔ لِاِیۡلٰفِ قُرَیۡشٍ: لِاِيْلٰف میں لام کے بارے میں دو رائے ہیں: ایک یہ کہ یہ لام تعجب ہے کہ قریش کا حال قابل تعجب ہے کہ اللہ کے فضل سے وہ تجارت جیسے فائدہ مند پیشے سے وابستہ ہو گئے جس کی وجہ سے ان میں خوش حالی آ گئی مگر وہ اس گھر کے رب کی بندگی نہیں کرتے جس نے یہ سب نعمتیں ان کے لیے فراہم کی ہیں۔

دوسری رائے یہ ہے کہ لام تعلیل ہے۔ یعنی علت اور وجہ بتانے والا لام۔ اس صورت میں یا تو سابقہ سورہ فیل کے ساتھ سلسلۂ کلام کو جوڑا جائے: ہم نے اصحاب فیل کو تباہ کیا تاکہ قریش، مکہ سے مانوس رہیں اور جاڑے اور گرمیوں کا سفر الفت و مانوسیت سے کریں۔

یا اس کا تعلق فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ سے ہے۔ یعنی کعبے سے مانوس رہنے اور جاڑے اور گرمیوں میں پرامن تجارتی سفر کرنے کی خاطر قریش کو چاہیے تھا کہ وہ اس گھر (کعبہ) کے رب کی عبادت کرتے۔ یعنی ان کا امن کے ساتھ تجارتی پیشے سے وابستہ ہونا اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس ایک نعمت کی بنا پر انہیں رب کعبہ کی عبادت کرنی چاہیے تھی۔


آیات 1 - 3