آیت 108
 

قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۚ فَمَنِ اہۡتَدٰی فَاِنَّمَا یَہۡتَدِیۡ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ ضَلَّ فَاِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیۡہَا ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ﴿۱۰۸﴾ؕ

۱۰۸۔ کہدیجئے: اے لوگو! بتحقیق تمہارے رب کی جانب سے حق تمہاری طرف آ چکا ہے، پس جو کوئی ہدایت حاصل کرتا ہے تو اپنی ذات کے لیے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو وہ بھی اپنی ذات کو گمراہ کرتا ہے اور میں تمہارا ذمہ دار نہیں ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ قَدۡ جَآءَکُمُ: حق تمہاری دست رسی میں آگیا ہے۔ راہ تمہیں دکھلادی گئی ہے۔ ہدایت اور گمراہی کو الگ کر کے دکھلا دیا گیا ہے۔ اب یہ خود تمہاری اپنی ذمہ داری ہے کہ گمراہی کو چھوڑ کر حق کے زیر سایہ آ جاؤ۔

۲۔ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ: رسولؐ کی ذمے داری تم تک حق پہنچانا تھا۔ تمہارا ہاتھ پکڑ کر جبراً ہدایت کی طرف لے جانا ان کی ذمے داری نہیں ہے۔ ہدایت کوئی مکروہ چیز نہیں کہ لوگوں پر مسلط کی جائے بلکہ ہدایت نور ہے جس کی طرف ہر چشم بینا رکھنے والا خود شوق سے آتا ہے۔ اپنی ذات کے لیے اس کی طرف لپکتا ہے کسی اور کے لیے نہیں۔

اہم نکات

۱۔ انسان خودمختارانہ طور پر ہدایت یافتہ یا گمراہ ہوتا ہے۔ اللہ اور رسولؐ کی طرف مسلط نہیں کیا جاتا: مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِوَکِیۡلٍ ۔


آیت 108