آیات 105 - 106
 

وَ اَنۡ اَقِمۡ وَجۡہَکَ لِلدِّیۡنِ حَنِیۡفًا ۚ وَ لَا تَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ﴿۱۰۵﴾

۱۰۵۔ اور یہ کہ آپ یکسوئی کے ساتھ اپنا رخ دین کی طرف ثابت رکھیں اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہوں۔

وَ لَا تَدۡعُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنۡفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ ۚ فَاِنۡ فَعَلۡتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۰۶﴾

۱۰۶۔ اور اللہ کے سوا کسی ایسی چیز کو نہ پکاریں جو آپ کو نہ کوئی فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر آپ ایسا کریں گے تو یقینا آپ ظالموں میں شمار ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَنۡ اَقِمۡ وَجۡہَکَ: کہہ دیجیے کہ مجھے جیسے مؤمنین میں سے ہونے کا حکم ملا ہے اسی طرح یہ حکم ملا ہے کہ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنی پوری توجہ اسی دین پر مرکوز کروں۔ حنف ایک طرف مائل ہونے کو کہتے ہیں۔ حنیفًا مائل ہونے والا۔ جس کا ترجمہ ہم نے ’’یکسوئی‘‘ کے ساتھ کیا ہے جو حنیف کا قریب ترین ترجمہ ہے۔ اپنا پورا وجود اسی دین کے ساتھ مربوط رکھوں ، کسی اور نظریہ اور مذہب کو اعتنا میں نہ لاؤں۔

۲۔ وَ لَا تَدۡعُ: اور ایسی چیزوں سے اپنی امیدیں وابستہ نہ کروں جنہیں کسی نفع و نقصان کا اختیار نہیں ہے۔ اگر ایسی بے بس چیزوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہوں تو یہ اپنی ذات کے ساتھ زیادتی ہے۔

۳۔ فَاِنۡ فَعَلۡتَ: اسی سورہ کی آیت ۶۹ میں بیان ہوا ہے کہ لفظ اِنۡ اکثر وقوع پذیر نہ ہونے والے واقعات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں فَاِنۡ فَعَلۡتَ اگر آپ نے ایسا کیا، بفرض محال ہے۔

اہم نکات

۱۔ اس ذات کو پکارنا چاہیے جس کے قبضہ قدرت میں دنیا و آخرت کا نفع و نقصان ہے۔


آیات 105 - 106