آیات 102 - 103
 

فَہَلۡ یَنۡتَظِرُوۡنَ اِلَّا مِثۡلَ اَیَّامِ الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ قُلۡ فَانۡتَظِرُوۡۤا اِنِّیۡ مَعَکُمۡ مِّنَ الۡمُنۡتَظِرِیۡنَ﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اب یہ لوگ اس کے سوا کس کے انتظار میں ہیں کہ اس طرح کے برے دن دیکھیں جو ان سے پہلے کے لوگ دیکھ چکے ہیں؟ کہدیجئے: پس تم انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں ہوں۔

ثُمَّ نُنَجِّیۡ رُسُلَنَا وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کَذٰلِکَ ۚ حَقًّا عَلَیۡنَا نُنۡجِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۰۳﴾٪

۱۰۳۔پھر ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیں گے، یہ بات ہمارے ذمے ہے کہ ہم مومنین کو نجات دیں۔

تفسیر آیات

۱۔ فَہَلۡ یَنۡتَظِرُوۡنَ: یہ لوگ نہ آیات الٰہی پر توجہ دیتے ہیں ، نہ فکر و نظر سے کام لیتے ہیں۔ کفر وانکار پر ایسے جم جاتے ہیں جیسا کہ جان بوجھ کر عذاب کا انتظار کر رہے ہوں۔ اسی طرح کا عذاب جو گزشتہ امتوں پر آیا ہے۔

تمام امتوں کی تاریخ یہی تو ہے کہ ان کی طرف انبیاء بھیجے گئے جیسا کہ تمہاری طرف رسولؐ بھیجے گئے۔ پھر ان میں سے کچھ ایمان لے آئے اور کچھ تمہاری طرح منکر ہوگئے۔ ان کو عذاب الٰہی سے بچنے کے لیے کہا جیسا تم سے کہا جا رہا ہے۔ انجام کار یہ ہوا کہ منکرین کو عذاب الٰہی نے گرفت میں لے لیا۔

۲۔ ثُمَّ نُنَجِّیۡ رُسُلَنَا: ہم اپنے رسولوں اور ایمان والوں کو نجات دیتے رہے ہیں اور دیتے رہیں گے۔

۳۔ کَذٰلِکَ ۚ حَقًّا عَلَیۡنَا: اسی طرح اس امت کے مؤمنین کی نصرت ہمارے ذمے ثابت ہے۔ اس امت کے مؤمنین کے لیے آیت کا یہ حصہ نوید نجات ہے لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ قرآن کی رو سے مؤمن کون ہے۔ جو سچے مؤمن ہیں ان کی نجات کو اللہ نے اپنے ذمے لیا ہے جو نہایت بڑی خوشخبری ہے۔

اہم نکات

۱۔ امت محمدیہ کے مؤمنین کی نجات کو خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے: کَذٰلِکَ ۚ حَقًّا عَلَیۡنَا نُنۡجِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔


آیات 102 - 103