ویڈیو درس کا تحریری نسخہ

تفسیر قرآن سورہ ‎التوبۃ آیات 13 - 16

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳﴾
کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑتے ہیں اور جنہوں نے رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ اگر تم مومن ہو تو اللہ تم سے زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔
مشرکینِ مکہ کا ذکر ہے جن کے بارے ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تم ان لوگوں سے نہیں لڑو گے نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ انہوں نے پہلے تو اپنا عہد و معاہدہ توڑا۔ صلح حدیبیہ میں جو معاہدہ ہوا تھا اسے توڑا جسکا ذکر پہلے بھی آیا ہے وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے ہاں سے نکالنے کا ارادہ کیا۔ اس سلسلے میں کہ رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ کیا (یہاں سوال پیدا ہوتا ہے) کیسے فرمایا جبکہ انہوں نے ارادہ نہیں کیا بلکہ نکالا تھا عملاً۔ دوسرا سوال یہ آتا ہے کہ انکا ارادہ نہیں تھا نکالنے کا بلکہ انکا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو شہید کرنے کا ارادہ تھا۔ سب قبائل مل کر شہید کرنے کے لیے شرکت کا ارادہ تھا۔
اس کے جواب میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں کہ پہلی بات تو یہ کرتے ہیں کہ مشورہ تو پہلے اخراج کا ہوا تھا لیکن بعد میں قتل کا فیصلہ ہو گیا۔ دوسرا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ اخراج سے مراد اخراج از مکہ نہیں بلکہ ان لوگوں کا ارادہ تھا کہ رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینہ میں رہنے نا دیا جائے۔ انکے عزائم رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مدینے سے اخراج کے لیے وہ کام کر رہے تھے۔ لہذا یہ مکہ سے نہیں مدینہ سے اخراج کے لیے ہے۔ ثالثاً یہ جواب دیتے ہیں کہ انکا ارادہ تو قتل کا تھا لیکن نتیجہ اخراج پر منتج ہوا لہذا اخراج کہا گیا ہے۔ بہر حال سب سے قابل قبول جواب یہ ہے کہ مدینے سے اخراج یعنی مسلمانوں کو وہاں پر ایک قوم تشکیل پانے کی فرصت نہ دینا تھا۔ اس کا ان لوگوں نے ارادہ بھی کیا لیکن وہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔
وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ
یعنی کہ پہلی بار لڑائی میں انہیں لوگوں نے پہل کی۔ جب بھی مشرکین نے لڑائی کی ہے پہل ان (مشرکین)کی طرف سے ہوئی۔ اسلام کی طرف سے کبھی پہل نہیں ہوئی۔ لہذا ان سے نہ لڑنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ وہ تم کو اپنے وطن میں بھی رہنے نہ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے مدینے سے بھی نکالنے کے عزائم ہیں تو تم ان کے لڑائی میں پہل کرنے کے باوجود بھی نہیں لڑو گے؟ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ کیا تم ان مشرکین سے ڈرتے ہو؟ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ ڈرنا تو اللہ سے چاہیے کہ اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے مشرکین سے خوف کرنے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں ہے کیونکہ اللہ کی طرف سے جب حکم آتا ہے ان سے لڑائی کرنے کا اور اللہ کی طرف سے نوید بھی سنائی جاتی ہے پھر اسکے بعد کوئی خوف کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اگر خوف کی گنجائش باقی رہتی ہے تو حکم خدا کی خلاف ورزی کی صورت میں اللہ کی ناراضگی کا خوف ہونا چاہیے۔ اس لیے آگے فرمایا
اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ
اگر تم کو اللہ کی باتوں پر ایمان آتا ہے تو اگر اللہ نے کوئی نوید سنائی ہے یا صرف اللہ کا حکم دینا کافی ہے(تو آپ کو ڈرنا نہیں چاہیے) اگر اس میں شک آتا ہے اور اللہ کی نصرت پر ایمان نہیں ہے تو ہر چیز کا خوف آنا چاہیے لیکن اگر ایمان ہے تو ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾
پھر اس آیت میں یہ حکم ہے قَاتِلُوۡہُمۡ ان کے ساتھ جنگ کرو۔ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو عذاب دے گا۔ یہ صریح لفظوں میں وعدہ ہے۔ وہ عذاب میں مبتلا ہونگے قتل کی صورت میں یا شکست اور رسوائی کی صورت میں عذاب میں مبتلا ہوں گے اور عذاب کا ذریعہ بھی تمہارا ہاتھ ہوگا (اس کا مطلب ہے کہ ہاتھ سلامت رہیں گے)۔ اس سے واضح فتح و نصرت کی نوید نہیں ہو سکتی۔ وَ یُخۡزِہِمۡ اور ان کو اللہ رسوا کرے گا۔ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ اور انکے خلاف تم کو فتح و نصرت سے نوازے گا۔ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ اور مومن کے دلوں کو ٹھنڈا بھی کر دے گا۔ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ پہلے تو عذاب دے گا اور عذاب میں قتل بھی ہے اور شکست بھی ہے۔
بعد میں وَ یُخۡزِہِمۡ آگیا اس میں قیامت کے دن رسوا ہونگے یہ شکست کی طرف اشارہ ہے۔ یہاں پر ایک بحث ہے یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ اللہ ان کو عذاب دیتا ہے تمہارے ہاتھوں سے۔ ایک جبر کا نظریہ ہے اس پر استدلال کیا جاتا ہے کہ ارادہ اللہ کا چلتا ہے اس کائنات کے اوپر۔ اللہ کا ہی ارادہ چلتا ہے اللہ کے ارادہ کے مقابلے میں کسی اور کا ارادہ نہیں چلتا لیکن اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ بندہ خود مختار رہے۔ اللہ کے ارادہ کے تحت بندہ خود مختار ہے۔ لیکن یہ اللہ کے ارادے کے مقابلے میں نہیں ہے۔ استدلال کیا جاتا ہے کہ بندہ اگر کوئی گناہ یا عمل خیر کرتا ہے تو وہ آلۂ کار کی طرح ہے۔ پیچھے اللہ کا ارادہ چلتا ہے۔ بندہ کا ارادہ نہیں چلتا اس میں بندہ ایک کاتب کے ہاتھ میں قلم کی طرح ہے اور یہ اپنی جگہ واضح ہے کہ اس سے آیت سے نظریہ جبر پر استدلال نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اللہ تعالٰی جب بھی کوئی کام انجام دیتا ہے تو اللہ براہ راست تو نہیں کرتا بلکہ بہت سے اسباب و علل درمیان میں آتے ہیں اور اللہ علت العلل ہے۔ تمام علتوں کے پیچھے اللہ کا ارادہ کار فرما ہوتا ہے۔ اسکے اور معلول کے درمیان میں بہت سے علل و اسباب آ جاتے ہیں ہر چیز میں۔ مثلاً ملک الموت جب روح قبض کرتا ہے تو قرآن میں کہیں فرمایا کہ ملک الموت روح قبض کرتا ہے اور بعض میں فرمایا کہ اللہ روحوں کو قبض کرتا ہے۔ اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا یعنی خود خدا قبض کرتا ہے۔
اس میں دونوں بات صحیح ہیں کیونکہ اللہ علت العلل ہے اور علتیں علت العلل کی طرف بھی منسوب ہوتی ہیں اور درمیان میں جو علتِ قریبہ ہیں اسکی طرف بھی منسوب ہوتی ہیں۔ جیسے ملک الموت علت قریبہ ہے اور اللہ علت العلل ہے۔ اسی طرح جب ہم اللہ کی بارگاہ میں یہ کہتے ہیں کہ میری بیماری کے لیے شفا دے دو اور علاج کے لیے کچھ پیسہ دے دو۔ جب دعا قبول ہوتی ہے تو اللہ خود تو براہ راست پیسے نہیں دیتا بلکہ کوئی بندہ آتا ہے وہ پیسے دیتا ہے۔
آگے فرمایا کہ یہ چند ایک وعدے ہیں کہ اللہ انکو رسوا کرے گا، تمہاری مدد کرے گا اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا۔
وَ یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۵﴾
یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ
اور انکے دلوں کا غصہ بھی نکالے گا۔ مشرکین کی طرف سے بہت سے لوگوں پر ظلم و زیادتی ہوئی تھی تو یہ سارا غصہ آج وہ نکالیں گے۔ وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ جس کو اللہ چاہے گا اسکی توبہ بھی قبول کرے گا۔ یہ مومنین سے مربوط ہے کہ کافروں کو رسوا کریں گے۔ بعد میں فرمایا وَ یَنۡصُرۡکُمۡ اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ اللہ ان کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا اور ان کے دلوں سے غیظ و غضب کو نکالے گا اور توبہ بھی قبول کرے گا۔ یہ مشرکین سے مربوط نہیں ہے۔ کیونکہ اس پر توبہ کا لفظ صدق نہیں کرتا۔
وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ لَمۡ یَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوۡلِہٖ وَ لَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَلِیۡجَۃً ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۶﴾
کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا تم یوں ہی چھوڑ دیے جاو گے حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیں دیکھا کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ اور اسکے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے سوا اپنا بھیدی نہیں بنایا۔ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ
قرآن مجید میں دیگر متعدد مقامات میں اسی لہجے میں سوال ہے کہ کیا تم نے یہ خیال کیا ہے کہ تمہارا امتحان نہیں ہوگا تمہاری آزمائش نہیں ہوگی ایک جگہ فرمایا کہ کیا یہ کافی ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور انکی آزمائش نہیں ہوگی اور امتحان نہیں ہوگا۔
امتحان و آزمائش کے بغیر استحقاق نہیں ہوتا۔ زبان ہلا دینا اسلام قبول کرنے سے ایک دو حکم مترتب ہو جاتے ہیں۔ لیکن ثواب و عقاب مترتب نہیں ہوتے۔ کلمہ کہہ دیا تو وہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کا جان و مال محفوظ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں رہنے سہنے کے لیے اس کے اوپر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صرف بات کرنے سے وہ امتحان میں نہیں آتا۔ صرف ایک جملہ لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ کہنے سے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا اور اس کا خون جان و مال محفوظ ہوگیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔ آگے اس کے اعمال کے اوپر ثواب بھی مترتب ہوں گے۔ اور مومن بھی بن جائیں گے یا اللہ کے نزدیک اس کا ایمان مورد قبول قرار پائے گا اس کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔
اَمۡ حَسِبۡتُمۡ کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے ؟ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا کہ تم ایسے چوڑ دیے جاو! وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ ابھی اللہ کو علم نہیں ہوا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں۔ لفظ کی یہ تعبیر وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ جبکہ اللہ عالم ہے قبلَ وجود المعلوم۔ معلوم کے وجود میں آنے سے پہلے اللہ عالم ہے۔ معلوم کے تحقق سے پہلے اس کو علم ہے۔ اللہ کا علم ازلی ہے۔ معلوم موجود ہو یا نہ ہو تو کیسے یہ فرمایا کہ اللہ کو جہاد کا علم نہیں ہوا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یعلم بمعنی یظھر ہے کہ ابھی تک چ عمل ظاہر نہیں ہوا۔ اللہ کے سامنے تحقق نہیں ہوا۔ اللہ کے علم میں ہے کہ فلاں جہاد کرے گا تو اسی علم کی بنا پر اسے جنت بھیج دو۔ لیکن ایسا نہیں کیونکہ تمام اثرات اللہ کے علم پر مترتب نہیں ہوتے بلکہ تمام اثرات عمل پر مترتب ہوتے ہیں۔ ولما یعلم اللہ جسکا مطلب ہے کہ ابھی عمل ظاہر نہیں ہوا۔ ابھی وہ مجاہد نہیں بنا۔ جہاد عملاً متحقق ہونے کے بعد مجاہد بنتا ہے۔ اسکے بعد ثواب ملتا ہے۔ لہذافرمایا اَمۡ حَسِبۡتُمۡ کیا تم نے یہ خیال کر رکھا ہے اَنۡ تُتۡرَکُوۡا کہ تم یوں ہی چھوڑ دیے جاؤ گے۔ صرف کلمہ کہنے سے مقرب الہی بن گئے، ایسا نہیں۔ وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ ابھی اللہ کے سامنے ظاہر نہیں ہوا۔ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ تم میں سے کون جہاد کرنے والے ہیں۔
وَ لَمۡ یَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوۡلِہٖ وَ لَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَلِیۡجَۃً (اور ابھی یہ بھی نہیں دیکھا) کہ اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے علاوہ دوسروں کو اپنا بھیدی نہیں بنایا۔
ولیجہ کہتے ہیں کہ کسی کو کوئی راز نہیں بتانا چاہیے تھا اور پھر بتا دیا۔
اس قسم کا ہم راز اور بھیدی نہیں بنایا۔ خدا اور رسول اور مومنین کو بھیدی بنانے کے کچھ واقعات رسول ص کے زمانے میں آئے لوگوں کی طرف سے۔ کہ انہوں نے اپنے مسلمانوں کی معلومات کو مشرکوں کو دی تھیں۔ یہ اسکی طرف اشارہ ہے۔ بعد میں اس نے توبہ کی وہ شخص صحیح تھا۔ مگر کسی مصلحت کی بنا پر اس نے یہ کام کیا۔
بہرحال وہ مجاہدین کے درجے پر نہیں پہنچا کیونکہ اس نے خدا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے علاوہ اپنا بھیدی بنایا۔ اس نے ان کے علاوہ انکے قرب حاصل کرنے کی کوشش کی وہ مجاہدین کے ساتھ نہیں آیا۔ تو یہ بھی آزمائش کی جائے کہ کون مشرکین کو اپنا بھیدی بناتا ہے اسکا علم نہیں ہوا تو اسکو ایسے چھوڑ دیا جائے۔ کچھ لوگوں نے جہاد کیا اور ہم راز نہیں بنایا خدا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مومنین کے سوا تو خدا کا قرب و منزلت اور درجے کا مستحق ہوتا ہے۔