ویڈیو درس کا تحریری نسخہ

تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 49 - 51

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
اِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ
منافق اور جن کے دلوں میں بیماری ہے دونوں کا قدر مشترک یہ ہے کہ وہ غیبی طاقت پر ایمان نہیں رکھتے، نہ وہ غیبی طاقت کو سمجھ سکتے ہیں۔ یعنی ضعیف الایمان جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ دل وہ جگہ ہے جہاں پر ایمان ہوتا ہے ایمان کا ارتکاز دل پر ہوتا ہے سالم دل قلب سلیم، سالم دل میں ایمان ٹھہرتا ہے اور مومن کا دل سالم ہوتا ہے اس میں روحانی بیماری نہیں ہوتی۔ جن لوگوں کے دل بیمار ہوتے ہیں مریض ہوتے ہیں اس میں ایمان ٹھہرنے کے لئے حالات ساگار نہیں ہوتے لہذا مریض دل کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان جو ہے اس کے لئے جائے استقرار نہیں ہے دل میں ٹھہرنا تھا وہاں تو مریض ہے۔ مریض دل یا نامساعد فضا میں کوئی چیز ٹھہر نہیں سکتی لہذا وہ بھی منافق تو واضح ہے ان کے پاس ایمان کا وجود ہوتا ہی نہیں ہے یہ جو مریض دل ہے جو منافق بھی نہیں ہے کفر نہیں رکھتے نہ ایمان کے لئے کوئی جگہ ہے ان کے دلوں میں بین بین میں ہے کفر اور نفاق اور ایمان کے درمیان میں لوگ۔ یہ لوگ بھی روحانی طاقت اور روحانی تائید غیبی کو سمجھنے سے قاصر ہے اس لئے ان دونوں کا قدر مشترک یہ ہے کہ وہ غیبی طاقت پر ایمان نہیں رکھتے یہ صرف محسوسات کے اوپر ایمان رکھتے ہیں۔
بہت ہوتے ہیں ایسے لوگ جن کی عقل ان کی آنکھوں میں ہوتی ہے جو چیز نظر آئی محسوسات میں تو پھر سمجھ میں آگیا جو چیز نظر میں نہیں آئی نہیں سمجھ سکتے یہ لوگ۔ نظر آنے والی ہے چیزوں کے اعتبار سے دنیاوی جو علل و اسباب ہیں ان کے حوالے سے تو مسلمانوں کے پاس کچھ نہیں تھا ظاہری علل و اسباب جو دنیا داروں کے ہوا کرتا ہے اور ہونا بھی ہوتا ہے وہ ان مسلمانوں کے پاس ہے ہیں نہیں، ایک غلط فہمی ہے ایک خیال ہے ایک واہمہ اس کے پیچھے یہ لوگ چلے ہوئے ہیں کہ ہم حق پر ہے لہذا ہم ہی جیتیں گے۔ ظاہر بین لوگوں کا یہ کہنا تھا غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکہ میں ڈالا ہے ایک غلط فہمی میں ڈالا ہے ہم جیتیں گے کیسے جیتیں گے؟ اس لاؤ و لشکر کے ساتھ دنیا میں کوئی لشکر جیت سکتا ہے؟ جبکہ حقیقت میں علل و اسباب جو ہیں وہ ایک مشہود اور محسوس علل و اسباب ہوتے ہیں اور اس مشہود و محسوس علل و اسباب کے پیچھے غیر مرئی علل و اسباب غیبی علل و اسباب بھی ہوتے ہیں وہ غیبی خدا اور رسول اور ان کے فرشتوں کی ضرورت بعد میں ہوتی ہے اس سے پہلے خود انسان کے اندر نفسیاتی جو غیبی طاقت، انسان کے پاس بہت بری طاقت ہوا کرتی ہے اگر انسان اس کو استعمال میں لے آئے عموما ہم لوگ اپنے اندر موجود طاقت کو استعمال میں نہیں لاتے ہیں، اگر ہم پر دباؤ آجائے ایسے حالات میں ہم لوگ آجائے تو پھر دیکھتے ہیں ہم کس قدر صلاحیت رکھتے ہیں فکری اور ہمارے اعصاب میں بھی بہت طاقت ہے۔ اعصاب میں بھی طاقت ہے ہمارے فکر میں بھی بہت بڑی طاقت ہے انسان کے اندر اس طاقت کو بھی اگر ہم بروئے کا لا سکے تو ہم بہت بڑی سی بڑی طاقتوں کو جن کے پاس یہ طاقت نہیں ہے یہ جو نامرئی طاقت۔
اسرائیل اور مسلمانوں کی لڑائی میں ہم یہی بات کیا کرتے ہیں ہمیشہ اسرائیل کے پاس وہ طاقت نہیں ہے جو مسلمانوں کے پاس ہے۔ طاقت سے مراد یہی نفسیاتی طاقت وہ غیبی طاقت الہی طاقت۔ آپ نے پیچھے ساتھ دیکھ بھی لیا کہ ایک گروہ کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکا ایک لشکر اور کشور جبکہ اس کے مقابلے میں نہ کوئی کشور ہے نہ لشکر ہے ایک گروہ ہے جس کے پاس نہ فضائیہ ہے نہ ٹینک ہے نہ اسلحہ ہے کوئی مقابلہ نہیں تھا ان لوگوں کے درمیاں اصلاً کوئی قابل موازنہ نہیں تھا۔ یہ غیبی طاقت کو یہ لوگ نہیں دیکھ سکتے تو وہ کہتے ہیں غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ جبکہ اس کے بعد انسان کے اندر پوشیدہ جو طاقت ہے اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ علل اسباب ہے۔ علل و اسباب کے پیچھے علت العلل اللہ تعالیٰ کی ذات مسبب لااسباب اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس پر توکل کرنے والے جو ہیں ان کے نہ جیتنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا بہر حال اسی آیت میں ارشاد فرمایا وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ جو لوگ اللہ پر توکل کرتے ہیں تو اللہ ہی غالب ہے اللہ ہی عزیز ہے اور حکیم، حکمت کی تشریح میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے حکمت واقع بینی کو کہتے ہیں حقیقت بینی کو کہتے ہیں۔ انسان حقیقت کے نہ جاننے کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے غلطی میں پڑتا وہ آیت ہے جس کو حکمت دی گئی ہے اس کو خیر کثیر وَ مَنْ یُّؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا كَثِیْرًاؕ خیر کثیر حکمت میں ہے اور حکمت واقع بینی کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ خالق واقع ہے اللہ سے بہتر واقع بین کون ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ عزیز اور غالب آنے والا ہے اور واقع بین اللہ تعالیٰ کی ذات خالق واقع ہے۔ بتایا کرتا ہوں نا آپ کو واقع کسے کہتے ہیں؟ واقع کو حق کہتے ہیں ہم لوگ اگر آپ کی بات واقع کے مطابق ہے تو اپ کی بات کو سچ کہتے ہیں اور اس بات کو حق کہتے ہیں اور اگر واقع نہیں ہے وہ باطل ہے آپ کی بات واقع کے مطابق نہیں ہے تو سچ نہیں ہے جھوٹ ہے حقیقت کو قیمت حاصل ہے حقیقت بینی بہت بڑی قیمتی چیز ہے لہذا للہ تعالیٰ کی ذات عزیز ہے حقیقت بین ہے اس حقیقت بین ذات پر جو عزیز بھی ہے بالادست ہے غالب آنے والا ہے اس کے اوپر توکل کرنے والے جو ہیں وہی جیت سکتے ہیں۔
آگے ارشاد فرمایا وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی الَّذِیۡنَ کَفَرُوا ۙ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ۚ وَ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ جنگ بدر میں جو لوگ قتل ہوئے ابو جہل کی طرح جو مشرکین کے بہت بڑے لوگ جب قتل ہورہے تھے اس وقت فرشتے ان کی روحیں جب قبض کر رہے تھے روحیں نکال رہے تھے تو ارشاد ہوتا ہے کہ کاش آپ اس حالت کو دیکھ لیتے کہ فرشتے ان کی روحیں قبض کر رہے تھے ان کے چہروں اور پشتوں پر ضربیں لگا رہے تھے اور کہہ رہے تھے اب جلنے کا عذاب چکھو ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ یہ حالت نزع کی بات ہے یہاں پر ایک بات تو یہ ہے وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذۡ یَتَوَفَّی یتوفی روحیں قبض کرنا یَتَوَفَّی پورا کرنا اس کی عمر پوری ہوگئی ہے اب روح جو ہے اپنے قبضے میں لے رہے ہیں فرشتے الۡمَلٰٓئِکَۃُ فرشتے ملک الموت ایک فرشتہ ہے اس کے کارندے ہوتے ہیں باقی بہت سارے فرشتے ہوتے ہیں ملک الموت کے اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے الۡمَلٰٓئِکَۃُ فرشتے ان کی روحیں قبض کر رہے تھے۔
ملک الموت کے کارندے ہوتے ہیں بہت سارے فرشتے ہوتے ہیں لوگوں کی روح قبض کر رہے ہوتے ہیں ایک چیز، دوسری چیز جب ان کی روحیں قبض کر رہے تھے اس وقت یَضۡرِبُوۡنَ وُجُوۡہَہُمۡ وَ اَدۡبَارَہُمۡ ان کو روح قبض کرتے ہوئے عذاب میں مبتلا کر رہے تھے فرشتے ییَضۡرِبُوۡنَ مار رہے تھے ضربیں لگا رہے تھے ان کے چہروں کے اوپر ان کے پشتوں کے اوپر اور کہہ رہے تھے ذُوۡقُوۡا چکھو ععَذَابَ الۡحَرِیۡقِ یعنی سوزش والا عذاب جلنے والا عذاب چکھو۔ یہاں ایک بات سمجھ میں آتی ہے جو ہمارے لئے بہت اہم ہے کہ انسان خواہ وہ مومن ہے یا کافر ہے منافق ہے فریض القب ہے مشرک جو بھی ہے اس دنیا سے جانے سے پہلے جب موت اس کے سامنے آتی ہے موت سامنے آتی ہے وہ اس دنیا کی فضا یا اس دنیا کے قانون اور اس دنیا کے دستور سے خارج ہو جاتا ہے ابھی مرا نہیں حالت نزع میں خارج ہو جا تا ہے حدیث میں ہے کہ انسان توبہ کر سکتا ہے موت سامنے آنے تک۔ مر نے تک نہیں کہا مرنے سے پہلے موت سامنے آنے تک توبہ کر سکتا ہے جب موت سامنے آ جاتی ہے وہ اس دنیا کے رہن سہن کے طریقوں سے نکل جاتا ہے اس کو ہر بات بتا دی جاتی ہے اس وقت مرنے سے پہلے ہاں حالت نزع میں مرنے سے پہلے مرنے والے کو اب اس دنیا کی زندگی کے بعد کی زندگی کی حالت اس کے سامنے لائی جاتی ہے اس کو بتا دیا جاتا ہے۔ اگر مومن ہے اس کو خوش خبری دی جاتی ہے یہی فرشتے ایک آیت ہے آجائے گی وہاں مشروحاً بتائیں گے آپ کو اس مومن کو بھی حالت نزع میں بتا دیا جاتا خوش خبری دی جاتی ہے فرشتے خوش خبری کے لے آتے ہیں جنت میں داخل ہو جاو اور اگر کافر ہے تو کافر ہے لئے ذُوۡقُوۡا عَذَابَ الۡحَرِیۡقِ جہنم جاو، یہاں سے شروع ہوتا ہے حالت نزع میں انسان کی قسمت کا فیصلہ سنا دیا جاتا ہے۔ اپنی زندگی ایک امتحان اس کا نتیجہ سنا دیا جاتا ہے مرنے والا جو کچھ مرنے کے بعد اس کے ساتھ ہونے والا وہ سن کر جاتا ہے یہاں سے۔
یہاں ایک واقعہ ہے پہلے بھی شاید سنایا آپ ابھی ناظرین کے لئے میں سناتا ہوں بہت اہمیت کے حامل واقعہ، حدیث ہے اس حدیث کا ناقل ابو بصیر حضرت امام صادق عليه‌السلام کے شاگرد رشید وہ ناقل ہے کہ میرا ایک دوست تھا کوفہ میں وہ حکومت کے ایوان کے ساتھ مربوط ہو گیا اور رقص و سرور و شرا ب و کباب کی محفلیں جماتا تھا اور اس میں مبتلا ہوگیا بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہیں آتا ہے۔ ایک دن میں حج پہ جا رہا تھا وہ خدا حافظی کے لے آتا ہے مجھ سے علیحدگی میں اس شخص نے کہا کہ تم اپنے مولا نہیں کہتے تھے صاحب کہتے تھے روایت کے الفاظ میں اپنے صاحب کے پاس جائے ساتھی کے پاس جائے تو ان سے کہیں مجھے اس مشکل نے نجات دلا دیں، کہا ٹھیک ہے بتاتا ہوں۔ ابو بصیر حج پہ جاتا ہے مدینہ میں حضرت امام صادق علیہ کی خدمت میں پہنچتا ہے امام کی خدمت میں پہنچتا ہے عرض کرتا ہے کہ ایک دوست ہے وہ اس قسم کی غلاظت میں مبتلا ہے اس نے آپ سے درخواست کی ہے مجھے اس چیز سے نجات دلا دے تو آپ نے ارشاد فرمایا: اس سے کہو اس سے کہو کہ اس غلاظت کو چھوڑ دو تو میں تیری نجات کی ضمانت دیتا ہوں، ابو بصیر واپس آتے ہیں لوگ ملنے کے لئے آتے حاجی جب واپس آتے ہیں تو لوگ ملاقات کے لئے آتے ہیں یہ حاجی بھی آ گئے ملنے کو اس نے اٹھنا چاہا تو ابو بصیر نے کہا بیٹھو کام ہے تیرے ساتھ بٹھا دیا۔ خلوت ہوئی تو اس سے کہا میں نے تیرا پیغام پہنچایا تھا تو آپ نے فرمایا کہ تم اس غلاظت کو چھوڑ دو میں تیری نجات کی ضمانت دیتا ہوں، اس نے کہا یہ فرمایا ہے؟ کہا فرمایا ہے بس ٹھیک ہے یہ چلا جاتا ہے اس نے وہ ساری غلاظت چھوڑ دی مال حرام تھا وہ سب واپس کیا، مدت کے بعد ابو بصیر کو پیغام بھیجتا ہے تو ابو بصیر جاتے ہیں تو دیکھا گھر کے دیوار کے پیچھے عریان بیٹھا ہے کپڑے بھی نہیں ہے تن پر کہا یہ کیا کر دیا ہے تم نے؟ کہا یہ تن کے کپڑے بھی مشکو ک ہے میں نکال دیا اتار دیا اب میں بے بس ہوں ابو بصیر نے اس کو کپڑا ادھر ادھر سے لا کر کے پہنا دیا۔ ایک ہفتہ دو ہفتے کے بعد پھر پیغام ملا وہ آپ کو بلا رہے ہیں وہ دوبارہ جاتے ہیں وہ بہت مریض ہے اور حالت نزع میں ہے بے ہوش ہوگیا دیکھا ابو بصیر کو ہوش میں آگیا دیکھا ابو بصیر کو اور کہا قد وفانی صاحبک اور پھر اس کی روح پرواز کر گئی کیا کہا؟ کہ آپ کے مولا نے میرے ساتھ وعدہ پورا کر دیا۔ چلا گیا، دوسرے سال ابو بصیر پھر حج پر جاتا ہے مولا کی خدمت میں جانے کے لئے اجازت لیتے ہیں جیسے اجازت ملتی ہے ابو بصیر داخل ہوتے ہیں سلام علیم، علیک السلام و رحمت اللہ و برکاتہ ابو بصیر قد وفیت صاحبک میں نے تیرے ساتھ کے ساتھ جو وعدہ پورا کر دیا ہے ہا ں ابو بصیر نے کہا مولا وہ تو مجھے بتا کر گئے ہیں جاتے ہوئے بتا کر گئے ہیں قد وفانی صاحبک۔
یہ ایک عجیب واقعہ ہے اس میں دو باتیں ہیں ایک بات تو یہ ہے کہ ہماری شفاعت کریں گے ہمارے امام رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور ان کے اہل بیت ہماری شفاعت کریں گے لیکن ہم کو اپنی غلاظت چھوڑنا ہوگا اس کے بغیر شفاعت نہیں ملے گی فرمایا تھا نا اگر تو یہ غلاظت چھوڑ دو تو میں ضمانت دیتا ہوں غلاظت نہ چھوڑنے کی صور ت میں کوئی ضمانت نہیں ایک تو یہ واقعہ۔ دوسری چیز یہاں سے جانے سے پہلے حالت نزع میں مومن ہو یا کافر ہو اس آیت میں بھی یہی ہے اس کو اپنی آنے والی جو زندگی ہے آخرت کی زندگی اس کا وہ بتا دیا جا تاہے ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ یہ عذاب یہ دائمی عذاب جو ہے بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ یہ خود تمہارے ہاتھوں کے آگے بھیجے ہوئے کا نتیجہ ہے بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ خود تمہارا کیا دھرا ہے اللہ نے تو کچھ نہیں کیا یہ بات میں کئی بار آپ سے کہا ہے کہ انسان کا عمل جب انسان عمل انجام دیتا ہے نیک ہو یا بد عمل انرجی میں بدل جاتا ہے۔ آپ کو عمل انرجی میں بدل جاتا ہے اسی لئے نامہ اعمال کو طائر پرندہ کہا ہے ٹھیک ہے، آپ کو عمل انرجی می بدل جاتا ہے انرجی کو دوام حاصل ہوتا ہے ہمیشہ ہمیشہ رہتا ہے اگر آپ کو عمل نیک ہے تو وہ نیک عمل آپ کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اگر آپ کے عمل بد ہے تو وہ عمل آپ کی جان نہیں چھوڑتا دونوں صورتوں میں ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡکُمۡ خود تمہارا عمل ہے یہ سوال آتا ہے نا۔
ہم پر سوال آتا ہے کہ کیا بات ہے کہ تھوڑی مدت کے لئے دنیا کی مختصر زندگی کے لئے مجرم جرم کرتا ہے کافر کفر کرتا ہے مشرک شرک کرتا ہے اس کو ابدی عذاب کیوں دیتے ہیں؟ تو اس کا جواب ہم نے دیا تھا کہ ابدی عذاب دینے کی کئی ایک جواب ہے یہاں پر۔ پہلا جواب یہ ہے کہ اس کا عمل جو ہے وہ خود اس کی جان نہیں چھوڑتا اللہ ظلم نہیں کر تا خود اس کا عمل اس کو عذاب دیتا ہے۔ اور عمل جو ہے وہ دوام کی شکل اختیار کر جاتا ہے عمل بد ہو تو بھی وہ دائمی ہوتا ہے عمل خیر ہو تو بھی وہ دائمی ہوتا ہے آپ ادھر عذاب کی بات کیوں کرتے ہیں ؟ ثواب کی بات بھی کرو دنیا میں تھوڑی دیر ثواب کا کام کیا ہے ہمیشہ کی جنت کیوں ملتی ہے؟ نہیں اس کا عمل اس کے لئے دائمی جو ہے وہ اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اس کا عمل اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا یا اس کا عمل اس کی جان نہیں چھوڑتا دونوں صورتوں میں دوسری صورت یہ بنتا ہے کہ اس نے عمل جرم ختم نہیں کیا وہ خود مر گیا یہ تو اس وقت کی ہے نا ہمیشہ جہنم میں وہ لوگ رہیں گے جو حالت کفر میں مرتے ہیں وہ مجرم نے جرم ترک نہیں کیا مجرم خود ختم ہوگیا جرم ختم نہیں کیا مجرم ختم ہو گیا یہ نہیں کہہ سکتے آپ اس نے تھوڑی دیر کے لئے جرم کیا ہے اس کو تھوڑی دیر موقع ملا ہے اس نے جرم کیا اس کے بعد خود ختم ہوا جرم ختم نہیں کیا۔ تیسری بات یہ ہے کہ دنیا کا کوئی قانون نہیں ہے کہ جرم کی مدت کے مطابق سزا دے دے کہ اگر ایک گھنٹہ جرم کیا ہو تو دو گھنٹہ ایک گھنٹہ سزا دے کسی کے قتل کے اوپر گولی جلانے میں چند سیکنڈ لگتا ہے تو اس چند سیکنڈ کے مقابلے میں عمر قید کی سزا یہ کونسا انصاف ہے؟ دو سیکنڈ کے مقابلے میں ایک سیکنڈ کے مقابلے میں عمر قید کی سزا کیوں دیتے ہیں آپ لہذا یہ درست نہیں ہے کہ ایک مدت کے گناہ کے لئے ہمیشہ کے لئے وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ اللہ ظلم نہیں کرتا۔
یہاں سے ایک نظریہ یہ ہے کہ ثواب اور عذاب یہ قراردادی نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ قرارداد کے طور پر عذاب نہیں آتا بلکہ عذاب جو ہے وہ قدرتی ہے طبیعی ہے، خود اس کا اپنا عمل جو ہے وہ عذاب بن کر کے سامنے آتا ہے لہذا وہ عمل کے بارے میں بھی یہ بات واضح ہے کہ عمل جو ہے وہ ختم ہونے والا نہیں ہے وہ انرجی کی شکل میں ہمیشہ اس کا عمل باقی رہتا ہے جب اس کا عمل ہمیشہ باقی رہتا ہے اس وقت عمل کے ساتھ ساتھ اس کے لئے وہ عذاب باقی رہتا ہے الا اینکہ اللہ تعالیٰ جو ہے وہ اس کے عمل کے اور اس کے درمیان میں حائل ہوجائے یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں ہے کہ اگر اس نے عمل بد کیا ہے لیکن بعد میں توبہ کیا توبہ کرنے کی صورت میں اللہ تعالیٰ درمیان میں حائل پردہ ڈال دیتا ہے اس کے عمل بد کے اثرات کو اللہ ختم کرتا ہے اللہ اپنی قدرت قاہرہ سے ختم کرتا ہے۔ یا خود اللہ تعالیٰ معاف فرماتا ہے چھوٹا موٹا گناہ کرتا ہے تو اس کے آثار کو اللہ تعالیٰ خود مٹا دیتا ہے باقی جہاں اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا مثلاً مشرک، شرک پہ مرتا ہے کافر حالت کفر میں مرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کفر اور شرک کے عمل کے درمیان میں جو اثرات ا س کے اوپر مترتب ہوں گے کوئی پردہ نہیں ڈالتا رکاوٹ نہیں ڈالتا اس کو کرنے دیا جاتا ہے جب اس عمل کو اپنے اثر دکھانے کا موقع دیا جاتا ہے تو یہ پھر وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیۡسَ بِظَلَّامٍ لِّلۡعَبِیۡدِ خدا ظلم نہیں کرتا خدا عذاب نہیں دے رہا بلکہ اس کا اپنا عمل اس کو عذاب دے رہا ہے اعاذنا اللہ من ذالک