ویڈیو درس کا تحریری نسخہ

تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیات 47 - 49

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ
سورہ انفال آیت 47، فرمایا: جنگ کے لئے نکلو تو ان لوگوں کی طرح نہ نکلو جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے نکلتے ہیں۔ اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے۔ کہتے ہیں مشرکین جب بدر کی لڑائی کے لئے نکل رہے تھے تو اس وقت کچھ مخلص لوگوں نے کہا تھا یار تمہارا قافلہ خیر خیریت سے گزر گیا ہے آگے مسلمانوں کے ساتھ لڑائی کے کی ضرورت نہیں واپس چلے تو اس وقت ان لوگوں نے تکبر کا اظہار کیا اور رقص و سرور کی محفلیں اور شراب و کباب کی محفلیں جمائی اور اپنی قوت اور اپنی طاقت اور اپنی حربی مہارت وغیرہ پر اتراتے تھے تکبر کرتے ہیں خوش فہمی میں مبتلا تھے۔ بَطَرًا اترانا، اپنے آپ پر ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہونا رِئَآءَ النَّاسِ لوگوں کو دکھانے کے لئے۔ رِئَآءَ النَّاسِ ایک تو مقابلہ ہوتا ہے مسلمانوں کے لئے تو کہتے ہیں رِئَآءَ النَّاسِ ریاکاری نہ کرو۔ مشرکین کے لئے ریاکاری کا مطلب نہیں ہوتا۔
مشرکین جو بھی کام انجام دیتے ہیں وہ اپنی دنیا کے لئے دیتے ہیں وہ اپنے بتوں کی عبادت کرتے ہیں تو دنیا کے لئے کرتے ہیں وہ آخرت کے قائل نہیں، وہ انبیاء کے قائل نہیں ہے ارسال رسل کے قائل نہیں آسمانی کتابوں کے قائل حساب و کتاب کے قائل اور اللہ کے لئے خالصتاً عمل کرنے کا تصور مشرکین میں نہیں کہ ریاکاری آجائے یا مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں وہ لوگ مخلص نہیں تھے ریاکارانہ لڑتے تھے کا تصور نہیں بلکہ یہاں رِئَآءَ النَّاسِ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دکھاتے تھے کہ ہم جیسا کوئی نہیں اپنے تکبر کا مظاہرہ کرتے تھے لوگوں کے درمیان میں اس میں اپنے تکبر اپنے بڑھائی میں ریاکاری کرتے تھے نہ اینکہ ریاکاری اللہ کے ساتھ خلوص کے مقابلے میں ہیں اپنی بڑائی کی ریاکاری کرتے تھے کہ ہم جیسا جزیرہ عرب میں کوئی نہیں ہے جزیرہ عرب جو ہے وہ ہمارے قبضے میں ہے اور ہمارے ساتھ لڑنے والے وہ منہ کی کھائیں گے وغیرہ۔ رِئَآءَ النَّاسِ سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے تکبر کا لوگوں کے درمیان میں اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرتے تھے۔
وَیَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اور راہ خدا کو روکنے کے لئے آتے تھے۔ اگر وہ راہ خدا کو روکنے کے لئے نہ آتے تو مسلمانوں کو ان کے ساتھ لڑائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آگے آیت آ جاتی ہے اس سلسلے میں اگر وہ صلح مصالحت کے لئے کافر یا مشرک آمادہ ہوجائے تو تم بھی صلح مصالحت کرو لڑائی کی اجازت نہیں ہے تمہارے لئے۔ بہر حال یہ لوگ راہ خدا میں رکاوٹ ڈالنے کے لئے نکلنے تھے مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے نکلے تھے اس وجہ سے ان کو شکت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں پر ان چند آیتوں میں کچھ حربی قوانین بیان ہوئے ہیں؛ سب سے پہلا قانون جو ہے وہ ثابت قدمی ہے دوسرا نکتہ ذکر اللہ ہے اللہ کے اوپر بھروسہ کر لیا اور یاد خدا کے ساتھ لڑائی کرو، اللہ کے لئے لڑائی کرو ہر قدم پر اللہ کو حاضر و ناظر رکھو، ذکر اللہ۔ تیسری چیز اللہ کی اطاعت چوتھی چیز رسول کی اطاعت پانچویں چیز نزاع نہ کرو جھگڑا نہ کرو چھٹی چیز صبر سے کام لے لو ساتھیوں چیز اپنی طاقت کے اوپر اترانا نہیں ہے خوش فہمی میں زیادہ اپنے بارے میں زیادہ خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا ہے۔ حربی قوانین میں اس چیز کو بہت بڑا دخل ہے کہ لڑنے والا لشکر جو ہے اپنے بارے میں بہت بڑی خوش فہمی میں اور طرف مقابل کے بارے میں اس کو ہیچ سمجھتا ہے پھر وہ شکت کھا جاتا ہے اس لئے انسان اس وقت اپنی پوری طاقت استعمال نہیں کرتا۔ انسان کے اندر بڑی طاقت ہوا کرتی ہے اس کو استعمال میں لانا ممکن میں نہیں ہوتا یا ممکن ہوتا ہے انسان غافل رہتا ہے اپنے دروں موجود طاقت کو بروئے کار لانے سے اور انسان کے اندر بہت بڑی طاقت ہوتی ہے انسان بہت قوی چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے نہایت طاقت ور بنایا ہے اس انسان کو صرف یہ ہے کہ یہ انسان اپنی اس طاقت کو بروئے کار نہیں لا سکتا وہ بروئے کا ر نہ لا سکنے کے وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہت بڑی چیز سمجھتا ہے اور اپنے دشمن کو ہیچ سمجھتا ہے۔
دشمن کو نا چیز سمجھتا کمزور سمجھنا اپنے آپ کو طاقت ور سمجھنا اس عوامل میں سے ہے جن کی وجہ سے کوئی بھی لشکر شکت کھا جاتا ہے یہ چھے ساتھ قوانین ہیں، حربی قوانین ہیں جو قرآن نے بیان کیا ہے چنانچہ اگر اپ اسلامی جنگوں کا مطالعہ کریں گے ان حربی قوانین کی روشنی میں تو آپ کو کہیں نہ کہیں ان حربی قوانین میں سے ایک میں دو میں تین میں سقم نظر آئے گا۔
وَ اِذۡ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ ایک اور مسئلہ کہ ان لوگوں کو شیطان نے ان کے عمل کو آراستہ کر کے دکھایا شیطان اپنے شیطانی اعمال کو اس کے ارتکاب کرنے والوں کے لئے بہت آراستہ کر کے دکھایا کرتے ہیں ہمیشہ، آپ دیکھیں گے ہمارے معاشرے میں یا دنیا کے بد ترین معاشروں میں جو بدترین کام گناہ اور جرم اور فحش کام کا ارتکاب کرتے ہیں وہ اس پر فخر و مباہات کرتے ہیں بہت اچھا سمجھتے ہیں زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ وہ فخر کرتے ہیں ہمارے اسلامی معاشروں میں جس کا ہم نام نہیں لے سکتے صرف نام نہیں لے سکتے وہ اس کے اوپر عمل بھی کرتے ہیں اور فخر بھی کرتے ہیں یہ بہت دکھنے میں آتا ہے خصوصاً۔ شیطان اپنے پیروکاروں کے اعمال کو مزین کر کے آراستہ کر کے خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے تاکہ اس پر عمل کرنے والوں کی ذہنی حالت بھی اس عمل کے ارتکاب کے لئے آمادہ و آراستہ ہو اور اگر وہ اس عمل کو بجا لاتے ہوئے کراہت کر تے ہیں تو اس کو صحیح طریقے سے انجام نہیں دے پاتے اس کو خوبصورت جانتا اس کو بہت بہتر اور اچھی چیز تصور کرتے ہیں پھر اس کو اچھی طرح انجام دیتا ہے۔ شیطان جانتا سمجھتا ہے کہ انسان سے کام لینے کا طریقہ کیا ہے؟ کام لینے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی نظر میں اس عمل کو بہت خوبصورت کر کے پیش کرو وہ یہی کام کرتا ہے بہت خوبصورت کر کے پیش کرتا ہے اور اس کا کیا طریقہ ہے، شیطان کیا کرتا ہے؟ اس عمل کو خوبصورت کرکے پیش کرنے کے لئے کیا کرتا ہے؟ شیطان کو کچھ تسلط ہے انسان کی ذھنی اور نفسیاتی اور فکری حالت پر جس طرح فرشتوں کو بھی انسان کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے کچھ تسلط حاصل ہے بالکل اسی طرح شیطان کو بھی تسلط کا راستہ موجود ہے وہ انسان کے ذہنوں کے اوپر سوار رہتا ہے البتہ یہ راستہ خود انسان دیتا ہے شیطان کو۔ اگر کوئی انسان شیطان کو سرے سے راستہ نہ دے ہو سکتا ہے شیطان کا جبر نہیں چلتا وہ قیامت کے دن کہتا ہے کہ میں نے تو صرف دعوت دی تھی یہ خود چل کر آیا میری طرف میری جبر نہیں چلتا تھا اس شخص کی طرف میری طاقت نہیں چلتی تھی اس شخص کے اوپر۔ یہ دعوت دیتا ہے دعوت دینے کا طریقہ اس کا یہ ہے کہ وہ دلوں میں اس چیز کو خوشنما بنا کر کے پیش کرتا ہے یہ مکہ والوں کے لئے ان کے دوستوں نے کہا تھا مت جاو لڑائی کے لئے ہمارا قابلہ صحیح سلامت سے گزر گیا ہے مسلمانوں کی پہنچ سے نجات حاصل کر لیا ہے اب ان سے لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ شیطان نے ان کو جا کر کے مسلمانوں کے ساتھ لڑنا اور یہ تصور ذہن میں ڈال دیا کہ آج ہم مسلمانوں کو ختم کر دیں گے اور ہم اس مصیبت سے نجات حاصل کریں گے اور دنیا میں ہمارا نام ہوگا زَیَّنَ بہت میٹھی میٹھی آرزوئیں جو ہیں وہ شیطان نے ان کے دلوں میں راسخ کر دیا ہم ایسا کریں گے ویسا کریں گے یہ تو ہمارے ایک صبح کا ناشتہ ہے اور لقمہ ہے مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے مدینہ میں کھانے پینے کی روٹی نہیں ملتی ان کو ہم سے کیسے لڑیں گے۔
زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ وَ قَالَ اور شیطان نے کہا، شیطان ان کے دلوں میں ڈالتا ہے اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلٰۤی اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ شیطان بھی الہام کرتا ہے ان کے ذہنوں میں ڈالتا ہے قال کی تعبیر یہ ہے کہ شیطان نے کہا ہے لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ لوگوں میں کوئی تمہارے اوپر غالب آنے والا نہیں کون ہے جو قریش کے ساتھ لڑائی لڑے اور غالب آجائے؟ دائیں طرف دیکھو اور بائیں طرف دیکھو جس طرف بھی دیکھو یہ جو مدینہ کے دو چند مٹھی بھر مسلمان قریش کے ساتھ لڑائی کر سکیں گے اور غالب آ سکیں گے للَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ اور میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں۔ ججَارٌ لَّکُمۡ جار ہمسایہ کو کہتے ہیں میں تمہارے ساتھ ہوں مدد کے لئے تمہارے ساتھ ہوں فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ جب دونوں گروہوں کا مقابلہ کرتے ہوئے دیکھا نَکَصَ عَلٰی عَقِبَیۡہِ وہ الٹے پاوں بھاگ گیا، کون؟ شیطان اور کہہ دیا وَ قَالَ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّنۡکُمۡم میں تم سے بیزار ہوں اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ میں کچھ دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے۔
یہاں پر ایک روایت بھی ہے اس آیت کی تفسیر میں دو موقف ہے یہاں پر وہ روایت کیا ہے ؟ وہ روایت یہ ہے کہ شیطان آیا سراقہ بن مالک بنی کنانہ کا وہ بہت رئیس تھ آدمی تھا، سراقہ بن مالک کی شکل میں، روایت ہے، سراقہ بن مالک کی شکل میں آتا ہے اور ان سے یہ باتیں کرتا ہے مشرکین سے لَا غَالِبَ لَکُمُ الۡیَوۡمَ اور زین بھی اسی سراقہ کی شکل میں آکر کے شیطان نے کہا اور پھر سراقہ اپنے قوم اور قبیلہ کے لوگوں کے ساتھ وہ چلا وَ اِنِّیۡ جَارٌ لَّکُمۡ ہم تمہارے ساتھ ہے فَلَمَّا تَرَآءَتِ الۡفِئَتٰنِ جب دونوں گروہوں کو دیکھا تو وہ بھاگ گیا سراقہ، سراقہ بھاگ گیا، سراقہ بن مالک بھاگ گیا اور سراقہ نے کہا اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ سراقہ کی کوئی الگ حیثیت نہیں تھی لیکن وہ سراقہ نہیں تھا شیطان تھا اس لئے اس کو نظر آتا تھا کہ فرشتے نازل ہو رہے تھے وہاں تو صورت حال بہت مختلف ہے سراقہ نہیں تھا حقیقت میں سراقہ کی شکل میں شیطان تھا تبھی تو اس نے کہا اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ورنہ سراقہ اگر حقیقی سراقہ ہوتا تو وہ بھی وہی کچھ دیکھتے جو دوسرے دیکھتے ہیں یہ شیطان تھا جو سراقہ کی شکل میں آیا ہوا تھا وہاں سے وہ بھاگ گیا۔ یہاں پر دو تفسیر؛ ایک تفسیر یہ ہے کہ شیطان سراقہ کی شکل میں آیا ہے، اور اس نے کہا ہے اظہار کیا ہے لشکر بنا کر کے لایا اور راستے میں چھوڑ کر کے چلا گیا نکث چھوڑ کر کے چلا گیا یہ ایک روایت ہے۔
دوسری تفسیر یہ ہے کہ نہیں یہ روایت قابل تطبیق نہیں ہے آیت کے اوپر تاریخی واقعات کی روشنی میں کوئی سراقہ مشرکین مکہ کے ساتھ کوئی لشکر نکلا ہو اور پھر راستے سے واپس گیا ہو اس روایت کے علاوہ کوئی اور شواہد ملتے ہیں نہیں ملتے ہیں کچھ مفسرین اس کو قصص وحکایات میں شامل کرتے ہیں جیسا کہ نزول قرآن قرآن کے شان نزول کے سلسلے میں بہت سی روایات جو ہیں وہ قرآنی حقائق اور قرآنی سیاق و سباق کے ساتھ میل نہیں کھاتی ہیں روایت کچھ کہتی ہے اور آیت کا سیاق و سباق اور کچھ کہتی ہے۔ کہتے ہیں یہ بھی انہیں میں سے ہے اس روایت کو رد کرتے ہیں لیکن اس روایت کو رد کرنے کی کوئی ٹھوس حقیقت کے ساتھ اس روایت کے ساتھ ٹکراؤ نہیں ہے۔ آپ اس روایت کو سند کے اعتبار سے رد کرتے ہیں تو رد کرسکتے ہیں، روایت کو ہم لیتے ہیں دو اعتبار سے لیتے ہیں یا رد کرتے ہیں؛ سنداً و متناً کہتے ہیں، بعض روایت ہے اس کی سند صحیح نہیں ہے راوی کذاب ہے اور صحیح راوی نہیں ہے اس لئے اس روایت کو رد کرتے ہیں ثانیا روایت کو رد کرتے ہیں متن روایت مضمون روایت غلط ہے قابل قبول نہیں ہے اس لئے رد کرتے ہیں خواہ سند صحیح ہو پھر بھی ہمارے بعض علماء روحانی علماء وہ فرماتے ہیں؛ ہم اپنے ائمہ عليهم‌السلام کے فرامین کو سونگھتے ہیں سندسے زیادہ ہم خود عبارت کو سونگھتے ہیں ہم کو فرمان معصوم عليهم‌السلام کی خوشبو آتی ہے ہم اس کو لے لیتے ہیں کہ ہم کو یقین ہوتا ہے کہ یہ کلام معصوم ہے۔ ایک خطبہ ہے کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ خطبہ حضرت علی عليه‌السلام کا خطبہ ہے کچھ اور لوگوں کہتے ہیں نہیں حضرت علی عليه‌السلام کا خطبہ نہیں ہے کسی اور کا نام لیتے ہیں اس کا خطبہ ہے، جاحظ، بڑا ادیب آدمی ہے، جاحظ کہتا ہے: یا اس کلام میں جو خوشبو ہے وہ خوشبو اس شخص سے جو غیر علی عليه‌السلام کی طرف نسبت دی ہے میل نہیں کھاتی اس کلام سے اس شخص کی خوشبو نہیں آتی، علی السلام کی خوشبو ہے اس کلام میں۔ وہ جاحظ کہتا ہے کہ علی عليه‌السلام کا کلام ہو سکتا ہے اس لئے کہ اس کلام میں علی عليه‌السلام کی خوشبو آتی ہے۔ ہمارے بہت سے روحانی علماء جو ہیں وہ کلام کی خوشبو سونگھتے ہیں۔ یہاں ہم اس روایت کو متن روایت میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ ہم اس کو رد کریں بہر حال دونوں باتیں ہو سکتی ہیں ہم کسی کو ترجیح نہیں دیتے، شیطان نے وسوسے کے ذریعے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی ہو قال شیطان جو کہا سے مراد ان کی ذہنوں میں یہ بات ڈالی ہو اس کو بھی قال کہتے ہیں اِنِّیۡۤ اَرٰی مَا لَا تَرَوۡنَ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ شیطان نے کہا مجھے تو خوف خدا ہے اللہ کا ڈر لگتا ہے مجھے یہ ایک سوال ہوتا ہے کہ اگر شیطان اللہ سے خوف کھاتا ہے۔
کیا مطلب ہے کہ اللہ سے خوف کھاتا ہے شیطان؟ شیطان کا تو ہم و غم خلاف خدا کرنا ہوتا ہے شیطان کی ڈیوٹی اور اس کا فرض منصبی وہ زندہ ہی اسی لئے اس نے وقت مانگا ہے اس لئے کہ میں اللہ نے فرمانی کروں اور نا فرمانی پر لوگوں کو اکساؤں خوف خدا کا کیا مفہوم ہوتا ہے یہاں پر؟ شیطان خوف خدا کرے اور بھاگ جائے، کوئی متقی ہوگیا شیطان ادھر آکر کے خوف خدا آگیا اس کو کیا مطلب ہے میں اللہ سے ڈرتا ہوں میں بھاگ جاتا ہوں یہاں۔ اس کی تفسیر کرتے ہیں کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے گناہ کی وجہ سے نہیں ڈرتا خوف خوف گناہ و عذاب آخرت نہیں ہے یہ خوف فی الحال فرشتوں کو دیکھ کر اس کو خوف آیا میرا وقت موعود ختم ہوگیا یا فرشتے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ فرشتے جب نزول کرنا شروع کریں گے یہ قیامت کا وقت آگیا یا شیطان نے جھوٹ بولا ہے دو تفسیر ہے؛ شیطان نے یہ سمجھا ہوگا فرشتوں کو دیکھ کر کے ڈر گیا اخاف اللہ نہ اینکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور نافرمانی سے ڈر گیا اس کے لئے تو وہ زندہ ہے۔ اس سے نہیں ڈرتا وہ بلکہ وہ کس سے ڈرا ہوگا کہ فرشتوں کا نزول دیکھ کر کے وہ اپنا آخری وقت کا تصور کر کے ڈر گیا ہوگا دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس نے جھوٹ بولا کہاں ڈر ہے اس کے پاس اللہ کا ڈر نہیں ہوتا۔ شیطان کو ہم سچ سمجھ کر کے اس اَخَافُ اللّٰہَ کو اپنے معنی میں لینے کی کوئی ضرورت نہیں شیطان جھوٹا ہے اس نے جھوٹ بولا ہے اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ ؕ وَ اللّٰہُ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ اللہ جو ہے وہ سخت عذاب دینے والا ہے اور وہ عذاب کا وقت آگیا اور ڈر گیا لہذا شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ سے ہو سکتا ہے اس کو ایسا لگا ہو کہ اس کا وقت ختم ہونے والا ہو فرصت کا وقت ختم ہوگیا ہے اور اس وجہ سے وہ ڈر گیا ہو یا فرشتوں کو دیکھ کر ڈر گیا ہو۔ یہ ضروری نہیں کہ اس نے یہ تصور کیا ہو مجھے جو فرصت ملی ہے وہ الی وقت المعلوم مجھے مہلت ملی ہے وہ مہلت کا دن ختم ہو گیا ہو ضروری نہیں ہے مہلت کا ختم نہ بھی ہوا ہو فرشتوں کو دیکھ کر کے یہ ڈر گیا اس وجہ سے وہ پیچھے ہٹا ہو۔
آگے ارشاد فرمایااِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ یہ بات ذہن میں رکھیں تین قسم کے گروہ ہوا؛ صالح مسلمان، منافقین اور بیمار دل مسلمان جو نہ منافق تھے اور نہ صالح اور مضبوط مسلمان تھے فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ یہاں بھی ااِذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ منافقین نے بھی کہنا شروع کیا اور ان لوگوں نے کہنا شروع کیا جن کے دلوں میں بیماری تھی کیا کہنا شروع کیاغغَرَّہٰۤؤُ لَآءِ دِیۡنُہُمۡ ان بے وقوف لوگوں کو دین نے دھوکہ دیا ہے لڑنے جاتے ہیں تلوار نہیں ہے حربی اوزار کو وجود نہیں ہے اصلاً لشکری ساخت باخت کچھ بھی نہیں ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ہم لڑنے کے لئے جائیں گے غر دھوکہ دیا ہے ان کودِیۡنُہُمۡ اپنے دین نے بے وقوف بنایا ہے، دھوکہ دیا ہے کا مطلب یہ ہے ان کو اپنے دین نے اور مذہب نے بے وقوف بنا دیا ہے حالانکہ وَ مَنۡ یَّتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ اس طرح کچھ گفتگو آئندہ بھی کریں گے انشاء اللہ۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتے ہیں وہ بے وقوف نہیں ہے یہ طاقت کے سر چشمے کے ساتھ ان کا تکیہ ہے، توکل علی اللہ اللہ پر بھروسہ جو اس کائنات کے طاقت کا اصل سر چشمہ ہے اس کے اوپر ان کا بھروسہ ہے سب سے زیادہ طاقت والے ہیں یہ سب سے زیادہ حقیقت بین ہیں اس حقیقت بینی کے اوپر سب سے زیادہ عاقل لوگ یہی ہیں سب سے زیادہ سمجھ دار لوگ نہیں ہیں اس لئے یہ لوگ اللہ پر توکل کر کے نکلے ہیں۔ طاقت کے اصل سرچشمہ کے ساتھ ان کا رابطہ ہے فَاِنَّ اللّٰہَ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ اللہ تعالیٰ غالب آنے والا اور حکمت والا ہے اس غالب آنے والی ذات پر ان کا تکیہ ہے یہ لوگ دھوکہ نہیں کھا رہے ہیں یہ لوگ حقیقت بینی سے کام لے رہے ہیں۔