ویڈیو درس کا تحریری نسخہ

تفسیر قرآن سورہ ‎الأنفال‎ آیت 41

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ
خمس کے سلسلے میں عصر رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خمس لیا جاتا تھا یا نہیں لیا جاتا تھا؟ اس سلسلے میں رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بہت سے مراسلات ہیں جو آپ نے مختلف قبائل کو بھیجے۔ ہمارے پاس کوئی آٹھ دس بلکہ تیرہ چودہ ایسے واقعات ہیں جس میں رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مختلف علاقوں کے وفود سے مختلف علاقوں مراسلے کے ذریعے خمس کی تاکید فرمائی۔ ہم ان میں سے ایک دو کا ذکر کرتے ہیں تیرہ چودہ میں سے۔
قبیلہ عبد القیس ایک وفد حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ آپ کے اور ہمارے درمیان میں مشرکین ہے ہم آپ کے پاس سارا سال نہیں آ سکتے ہیں صرف حرمت کے مہینوں میں جس میں لڑائی قتل و قتال جائز نہیں ہے مشرکین کے نزدیک بھی جو حرمت کے چار مہینے ہیں اس کو مشرک لوگ بھی حرمت کے مہینے مانتے تھے اس میں کسی کو مارتے ہیں تھے قتل نہیں کرتے تھے؛ محرم، ذی الحج، ذی القعدہ، رجب یہ چار مہینے جو ہیں وہ حرمت کے مہینے ہوتے ہیں جس میں قتل قتال حرام ہے جائز نہیں ہے لڑائی جائز نہیں ہے، امن کے مہینے۔
مشرکین بھی ان مہینوں میں کسی کو نہیں مارتے تھے۔ تو ان لوگوں نے کہا کہ ہم امن کے حرمت کے مہینوں میں آپ کے پاس آ سکتے ہیں، ہم کو وہ باتیں بتا دیجئے جن پر عمل کر کے ہم جنت جا سکیں، تو حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا صحیح مسلم کی روایت ہے حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس وفد سے فرمایا: آمُرُكُمْ بأَرْبَعٍ، وأَنْهَاكُمْ عن أرْبَعٍ چار چیزوں کا حکم دیتا ہے اور چار چیزوں سے روکتا ہوں۔ وہ چار چیزیں جن کا حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حکم دینا چاہ رہے ہیں ان میں سے ایک چیز آمُرُكُمْ بِالإيمَانِ باللَّهِ ایمان باللہ کا حکم دیتا ہوں پھر فرمایا وَھَلْ تَدْرُونَ مَا الإيمانُ باللَّهِ کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان باللہ کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ فرمایا کہ ایمان باللہ کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ کلمہ پڑھے نماز قائم کرے، زکواۃ دے دیں اور مغنم یعنی آمدنی سے یا غنیمت کا خمس دے دیں۔ اب یہاں پر زکواۃ اور خمس دو دونوں چیزوں کا ذکر آیا ہے اس سلسلے میں ایک بات ہمیں کرنا ہے آپ سے یہ وفد یہ قبیلہ عبد القیس کا جو وفد جو ہے اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ حرمت کے مہینوں کے علاوہ دیگر مہینوں میں حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آئے وہ کیسے کسی سے لڑائی کر سکیں گے؟ غنیمت حاصل کر سکے جنگی غنیمت، غنیمت سے مراد ہم یہاں پر لے سکتے ہیں آمدنی اور مکاسب جو کمائی ہوتی ہے لوگوں ان میں خمس دے دیں۔
ایک بات یہاں جو یہاں قابل توضیح ہے کہ زکواۃ اور خمس ایک سوال یہ اٹھایا جا سکتا ہے اٹھاتے بھی ہے کہ قرآن مجید میں جا بجا زکواۃ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ زکواۃ، زکواۃ، زکواۃ کا بہت ذکر ملتا ہے لیکن خمس کا ذکر صرف اسی ایک آیت میں ہے تو ابھی آپ لوگ خمس کو جتنی اہمیت دیتے ہیں اور زکواۃ کو اہمیت نہیں دیتے وغیرہ، اس کے لئے یہ وضاحت بہت ضروری ہے زکواۃ اس مال کو کہتے ہیں جو دیا جاتا ہے۔ اس میں ایک نصاب کے اوپر ایک مال آتا ہے نصاب پورا ہونے پر مال آتا ہے، اس کو ہم عرف فقہ میں زکواۃ کہتے ہیں، نصاب پر اتنے جانور ہوجائے تو اس پر زکواۃ، اتنی گندم ہوجائے تو اس کے اوپر زکواۃ ہے اتنا سونا چاندی ہوجائے نصاب، نصاب ہے ایک مقدار معین ہے اس معین مقدار کو پہنچے پر ایک حصہ زکواۃ میں دینا ہوتا ہے خواہ آپ کو خود ضرورت ہو یا نہ ہو اپ کی ضرورت سے بھی اٹھاتے ہیں زکواۃ کے عنوان سے اتنی گندم ہوگئی ہے اتنی گندم میں سے اتنا حصہ زکواۃ میں دے دو تو اپ یہ نہیں کہہ سکتے یہ جتنی گندم ہم کو ہوئی ہے ہم کو اس سے زیادہ کی ضرورت ہے، ہو تم کو زیادہ کی ضرورت ہو لوگوں کی ضرورت سے بھی اٹھاتے ہیں اگر ضرورت بھی ہے پھر بھی اٹھا لیتے ہیں۔
خمس ضرورت سے نہیں اٹھاتے خمس بچت سے اٹھاتے ہیں خمس اور زکواۃ میں فرق ہے خمس اور زکواۃ میں فرق یہ ہے خمس بچت سے اٹھاتے ہیں اس لئے زکواۃ کو اوساخ الناس لوگوں کے میل کچیل کہا ہے چونکہ ان کی ضرورت کے باوجود اٹھایا جاتا ہے اور خمس ضرورت سے نہیں اٹھاتے بچت میں بھی پانچواں حصہ صرف چار حصہ اس بچت میں سے بھی مالک کے لئے رکھا جاتا ہے۔ بچت کا پانچواں حصہ اٹھایا جاتا ہے یہ اوساخ نہیں ہے بچت ہے۔ یہ فرق ہے بنیادی فرق ہے خمس اور زکواۃ کے درمیان میں لیکن زکواۃ مطلق اس مال کو کہتے ہیں جو نکالا جاتا ہے دیا جاتا ہے عشر بھی زکواۃ ہے، فطرہ بھی زکواۃ ہے ایک اعتبار سے اور یہ جو بھی مال یہ جو آپ دعوت دیتے ہیں ولیمے دیتے ہیں وہ بھی زکواۃ ہے کسی کو دعوت کھلاتے ہیں، وہ بھی زکواۃ ہے زکواۃ واجبہ زکواۃ مستحبہ، یہ جو خمس ہے یہ بھی قرآنی اصطلاح میں زکواۃ میں شامل ہے۔ خمس کو بھی زکواۃ کہتے ہیں یعنی راہ خدا میں دیا جانے والا مال ہے خمس بھی دیا جانے والا مال ہے فطرہ بھی عشر بھی یہ ذیلی مال ہوتے ہیں سب کا عنوان جو ہے وہ زکواۃ ہے لہذا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ میں خمس بھی ہے فطرہ بھی ہے عشر بھی یا دیگر جو عناوین ہوتے ہیں وہ تمام جو مالی واجبات ہیں مالی واجبات کو زکواۃ کہتے ہیں خواہ مالی واجبات وہ نصاب کی بنیاد پر ہو یا بچت کی بنیاد پر ہو مالی واجبات کو زکواۃ کہتے ہیں لہذا ایسا نہیں ہے۔
قرآن مجید میں خمس کا ذکر ایک جگہ آیا ہو ذیلی حکم ایک جگہ آیا ہے۔ یہاں پر تیرہ چودہ ایسے مواقع ہیں جو جہاں پر رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے لوگوں کو خمس کے لئے فرمایا، ہم اب آتے ہیں بچت پر خمس۔ یہ ساری گفتگو قبول ہے ہم کو لیکن یہ بچت کے اوپر خمس کہاں سے نکالا آپ لوگوں نے؟ بچت پر خمس آمدنی ارباح مکاسب جو انسان کی اپنی کمائی روایت کے الفاظ ہے ارباح مکاسب، مکاسب یعنی کسب کمائی میں سے جو فائدے آمدنی ہوتی ہے اس پر خمس ہے معصومین عليهم‌السلام نے فرمایا اس کا پانچواں حصہ دینا ہے بچت کی صورت میں دینا ہے۔ بچت نہ ہو تو ہر کمائی کے اوپر نہیں ہے اور اگر اپ کی کمائی نہیں ہے آپ نے خود نہیں کمایا وراثت میں کوئی مال مل گیا اس پر خمس نہیں ہے۔ جہیزیہ وغیرہ کے سلسلے میں جو کئی سال والدین جو ہے اپنے بچوں کے لئے جہیزیہ بناتے ہیں، اس پر بھی خمس نہیں ہے اگرچہ وہ بچت میں جاتا ہے۔ جہیزیہ پھر بھی اس پر خمس نہیں ہے وراثت کے اوپر خمس نہیں ہے جو آپ کی اپنی کمائی نہیں ہے اس پر خمس نہیں ہے آپ کو وراثت میں ایسے کوئی مال مل گیا۔ بچت کے اوپر خمس ہے۔ فقہ جعفری میں بچت کے اوپر خمس ہے اس پر تمام علماء کا اجماع قائم ہے، تمام امامیہ علماء شیعہ علماء اور فقہاء قدیما و حدیثا ہر عصر اور ہر مصر کے علماء نے یہ اتفاق کیا اجماع کیا ہے کہ بچت پر آمدنی کے بچت پر خمس ہے۔ یہاں دو فقہاء کا ذکر ملتا ہے صرف، دو فقہاء کا ذکر ملتا ہے کہ ان دونوں نے فرمایا ہے کہ بچت کے اوپر خمس نہیں ہے وہ ابن جنید اور ابن عقیل یہ دو قدیم فقہاء ہیں انہوں نے فرمایا ہے کہ بچت کے اوپر خمس نہیں ہے۔
ہمارے فقہاء فرماتے ہیں کہ ان دونوں کی طرف سے جو اختلافی فتوی ہے، اس فتوی کی عبارت بھی واضح نہیں ابن جنید اور ابن ابی عقیل، ان دونوں کی طرف سے جو اختلافی فتوی ان دونوں کی طرف منسوب ہے عبارت بھی واضح نہیں ہے۔ فقہاء فرماتے ہیں: عبارت ان دونوں کی واضح نہیں ہے کہ وہ اختلاف کرتے ہیں، ان کو تامل ہے وہ اس سلسلے میں فیصلہ نہیں کر سکے تردد ہے، اس قسم کی کوئی بات ہے فتوی نہیں ہے کہ یہ کہے کہ خمس نہیں ہے سرے سے بچت کے اوپر لہذا ان دونوں کا اختلاف جو ہے وہ اجماع کے خلا ف نہیں شمار کیا جاتا چونکہ عبارت واضح نہیں ہے اگر عبارت واضح ہوتی تو ہم کہتے تھے کہ اجماع نہیں ہے دو فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے معاصر فقہاء فرماتے ہیں چونکہ ان کی عبارت صریح نہیں ہے لہذا یہ دو مجتہدین کی عبارت جو ہے وہ خلاف اجماع نہیں سمجھی جائے گی۔
دوسری بات اسلام کے مالی نظام کے حوالے سے اسلام کے مالی نظام میں ہم نے آپ کو بتایا کہ معاشرے میں تین گروہ ہوتے ہیں؛ اپنی ضرورت سے زیادہ کمانے والے، برابر کمانے والے اپنی ضرورت سے کم کمانے والے، ضرورت سے کم کمانے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مالی سسٹم رکھا ہے، خمس ہے فطرہ ہے زکواۃ ہے۔ زکواۃ سادات کے اوپر حرام ہے زکواۃ واجبہ، فطرہ حرام ہے فطرہ زکواۃ واجبہ ہے اور نصاب کے اوپر جو زکواۃ آتی ہے وہ سادات کے اوپر حرام ہے۔ سادات فقیر و فقراء کے لئے زکواۃ حرام ہو اور اس کا متبادل کوئی اور نظام نہ ہو اسلامی مالی نظام میں خلا نہیں ہو سکتی اس خلا کو خمس کے ذریعے پر کی جا سکتی ہے، اور خمس جو ہے وہ اس سسٹم کے تحت بھی ضروری ہے کہ سادات کے لئے زکواۃ کی جگہ کوئی اور مد ہونا چاہیے۔ سادات کے لئے زکواۃ کے سلسلے میں یہاں تک ممنوع ہے کہ فضل ابن عباس عبد المطلب بن ربیعہ دونوں، دونوں فقیر تھے مسکین تھے دونوں کی شادیوں کا مسئلہ پیش آیا مصارف ان کے پاس نہیں تھا تو دونوں چل کے جاتے ہیں رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کہتے ہیں کہ ہم دونوں جو ہیں شادی کے جو ہیں شادی کے جو ہیں مصارف برداشت نہیں کر سکتے ہیں ہمارے پاس نہیں ہے ہم کو زکواۃ جمع کرنے کے لئے کام دے دیں اس کی مزدوری سے ہم کچھ کما کر کے شادی کر لیں، زکواۃ جمع کر نے کے لے اس لئے کہ زکواۃ کا جو مصارف ہے زکواۃ کے مصارف میں سے ایک مصرف یہ ہے نا والعاملین اس کے اوپر اس زکواۃ کو جمع کرنے کے لئے جو ملازمین ہوتے ہیں وہ ملازمین کے اوپر بھی خرچ ہوتا ہے خواہ وہ مالدار ہو یا مالدار نہ ہو کام کیا ہے محنت مزدوری کی ہے تو وہ اجرت دینا ہوتا ہے زکواۃ سے اجرت مل جاتی ہے ان کو۔ تو کہا کہ ہم زکواۃ نہیں کھا سکتے ہیں تو اجرت جو کھا سکیں گے۔ ہم کام کریں گے کام کی اجرت میں ہم کو، رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے فرمایا: بنی ہاشم زکواۃ کا پیسہ نہیں کھا سکتے خواہ اجرت ہیں کیوں نہ ہو۔ یہ روایت جو ہے یہ بھی صحیح مسلم کی روایت ہے فرمایا: إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَنْبَغِي لِآلِ مُحَمَّدٍ؛ إنَّما هي أَوْسَاخُ النَّاسِ صدقہ آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سزاوار نہیں ہے اجرت کے لحاظ سے بھی سزاوار نہیں ہے چنانچہ ان کی شادی کے اخراجات جو ہے رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خمس سے پورا کیا کام نہیں دیا۔ لہذا اسلام کے مالی اعتبار سے بھی زکواۃ کی جگہ سادات کے لئے کوئی آمدنی ہونی چاہیے۔
اب ہم آتے ہیں ہمارے آئمہ عليهم‌السلام کی طرف سے جو روایات ہیں ان روایات کی طرف آتے ہیں اگر چہ روایات سے سہارا لینا جو ہے وہ فقیہ اور مجتہد جو فتوی دیتے ہیں ان کا کام ہے تا ہم تبرکاً ہم یہاں پر ہمارے آئمہ کی کچھ اقوال نقل کرتے ہیں۔ امام موسی کاظم عليه‌السلام کی طرف سے روایت ہے فرماتے ہیں:فی کل ما افاد الناس من قلیل او کثیر جو کچھ لوگوں نے کمایا ہے افاد فائدہ اٹھایا ہے تھوڑا ہو یا زیادہ وہ اس کے اوپر خمس ہے۔ علی ابن مہزیار بہت بڑے ہمارے آئمہ عليهم‌السلام کے شاگردوں میں سے ہیں وہ روایت کرتے ہیں: ہر چیز کے اوپر عَلَیہِ الْخُمُسُ بَعدَ مَؤنَتِہِ وَ مَؤنَۃِ عِیَالِہِ وَ بَعدَ خَرَاجِ السُّلْطَانِ سلطان یعنی حکومت کا ٹیکس اور اپنے گھر کا خرچہ چلانے کے بعد جو بچتا ہے اس کے اوپر خمس ہے یعنی اس کا پانچواں حصہ دینا ہے۔ امام محمد باقر عليه‌السلام کی طرف سے روایت ہے لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَشْتَرِیَ مِنَ الْخُمُسِ شَیْئاً کسی کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ خمس کی رقم سے کوئی چیز خریدیں حَتَّی یَصِلَ اِلَیْنَا حَقُّنَا یہاں تک کہ ہمارا حق ہم تک پہنچ جائے ہمارا حق ملنے تک کوئی اس رقم سے کوئی چیز نہیں لے سکتا، ہمارا حق جدا کرو اپنا حق سے خرید لیا کرو۔ امام جعفر صادق عليه‌السلام کی طرف سے روایت ہے لَا یُعْذَرُ عَبْدٌ اشْتَرَی مِنَ الْخُمُسِ شَیْئاً اَنْ یَقُولَ یَا رَبِّ اشْتَرَیْتُہُ بِمَالِی حَتَّی یَأذَنَ لَہُ اَھْلُ الْخُمُسِ کوئی اگر غلام خریدتا ہے اپنے پیسے سے اگر اس کے اوپر خمس آیا ہوا ہے تو وہ کہہ نہیں سکتا کہ میں نے اس عبد کو اس غلام کو اپنے مال سے خریدا ہے نہیں کہہ سکتے، اس کا مال نہیں ہے اس میں ہمارا حق ہے ہمارا پیسہ ہے اس کو جدا کرو اور پھر اس کے بعد کہ سکتے ہیں میں نے اپنے مال سے خریدا ہے۔ اس عبارت میں اتنی صراحت موجود ہے ہر شخص جس کے اوپر خمس آیا ہوا ہے وہ یہ کہنے کا بھی مجاز نہیں ہے کہ یہ میرا مال ہے، اس عبارت میں دیکھیں اَنْ یَقُولَ یَا رَبِّ اشْتَرَیْتُہُ بِمَالِی خدایا میں نے اس کو اپنے مال سے خریدا ہے کل قیامت کے دن جب حساب و کتاب لیا جائے گا وہاں وہ اللہ کے سامنے یہ بات نہیں کر سکتا ہے کہ میں نے اپنے مال سے خریدا ہے حَتَّی یَأذَنَ لَہُ اَھْلُ الْخُمُسِ جب خمس والے اجازت نہ دے، خمس والے اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ خمس کی ادائگی نہ ہو اور اپنے مال کو پاک و پاکیزہ نہ کرے۔ اس وقت تک خمس دینے سے پہلے کسی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ یہ کہے کہ یہ میرا حق ہے۔
ہم آتے ہیں خمس، آیت کی تصریح یہ ہے فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ خمس کے مصارف کے چھے قسمیں ہیں، چھے اقسام، سہم اللہ، سہم الرسول، سہم ذی القربی، سہم مساکین، سہم یتامی، سہم ابناء السبیل۔ چھے قسم ہیں ان چھے میں سے پہلے تین امام ما کا مال باقی تین جو ہے وہ سادات کا مال ہوتا ہے۔ یعنی اگر اپ کے پاس پانچ لاکھ روپیہ بچت میں ہے تو اس میں سے ایک لاکھ روپیہ خمس ہے اس میں سے پچاس ہزار روپیہ کو امام کا حصہ کہتے ہیں سہم اللہ سہم رسول سہم ذوی القربی امام کا ہے باقی جو یتیم ابناء السبیل اور مساکین سادات کا ہوتا ہے، سادات کے یتیم، سادات کے مساکین سادات کے مسافر اس کو سہم سادات کہتے ہیں چھے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ہمارے سنی مصادر میں پانچ حصوں کا ذکر ملتا ہے اور یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ عہد رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں بہت سے مصادر ہے ہم یہ سارا بیان نہیں کرتے یہاں پر ہم کسی کے مقابلے میں کوئی چیز ثابت کرنا نہیں ہے، صرف اتمام حجت کے لئے ایک بات کرنی ہے زید ابن ارقم راوی ہے جبیر ابن مطعم راوی ہے ابن عباس راوی ہے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں سہم ذی القربی بنی ہاشم بنی مطلب کے اوپر رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خرچ کرتے تھے بلکہ یہ جبیر کہتا ہے کہ میں اور حضرت عثمان غنی ہم دونوں رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں گئے اور فرمایا قریش کے ہیں ہم بھی آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قبیلے ہیں ہم میں اور آپ میں کیا فرق ہے آپ بنی ہاشم کو خمس دیتے ہیں ہم کو نہیں دیتے؟ تو رسالت ماب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: إِنَّهُمْ لَمْ يُفَارِقُونِي فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا إِسْلَامٍ یہ بنی ہاشم جاہلیت میں بھی ہمارے ساتھ رہے اسلام میں ہمارے ساتھ رہے۔ بنی ہاشم اور دیگر قبائل کا آپس میں مقائسہ موازنہ نہیں ہوتا، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں: انا کنا نری اناھم ہماری یہ رائے تھی کہ یہ ذی القربی یا غریب مساکین کا جو آدھا حصہ ہوتا ہے خمس کا یہ ہمارا حصہ ہے ہمارا مال ہے یہ ہماری رائے تھی ہمارا نظریہ تھا رسالت مآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں اسی طرح ہوتا رہا فابی ذالک علینا قومنا لوگوں نے ہم کو نہیں دیا تھا ہمارا حصہ لہذا آدھا حصہ سادات کو دیا جائے گا آدھا حصہ امام کا مال ہے امام کا مال جو ہے وہ اللہ اور رسول کا مال ہوتا ہے وہ فی سبیل اللہ خرچ کیا جاتا ہے مسجد بنائے مدرسہ بنائے عزاداری پر خرچ کرے تبلیغ دین کے اوپر خرچ کرے تو اس کے لئے کتابیں چھاپے اور آدھا حصہ سادات، غریب، مستحق، نادار سادات کا حصہ ہے۔