ویڈیو درس کا تحریری نسخہ
تفسیر قرآن سورہ هود آیات 1 - 3
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَالصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى أَشْرَفِ الْأَنْبِيَاءِ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَاٰلِه الطَّیِّبِیْنَ الطَّاهرِیْنَ
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
سورہ ھود
الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾
یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی اور اس کے مضامین سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکی سورہ ہے اس لئے مکہ میں رسالت مآب کو نہایت ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا مشرکین کی طرف سے، اس اسلامی تحریک کے ابتدائی مراحل تھے مشرکین کی طرف سے مقاومت بہت سخت تھی ان حالات میں یہ نازل ہوا۔
فرمایاالٓرٰ یہ حروف مقطعات ہیں اس کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ حروف مقطعات کا مطلب اور معنی سمجھنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اس لئے کہ الٓرٰ کا ہم مخاطب نہیں ہے یہ رمز اور نشانی ہے اللہ اور اس کے حبیب کے درمیان ہم سب کو بتانا مقصود ہوتا ہے تو پھر ایسے الفاظ استعمال کیا جاتا جو ہم لوگ سمجھے، مخاطب کے سمجھ اور فہم کے مطابق بات کی جاتی ہے۔ الٓرٰ کہنے سے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی یہ رمز ہے اشارہ ہے۔
کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ کتاب یعنی ھذا کتاب یہ قرآن اس قسم کی کتاب ہے کہ جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ایک باحکمت، با خبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہے ثُمَّ فُصِّلَتۡ پہلے محکم اور پھر تفصیل۔ استحکام اور تفصیل پر مشتمل ایک کتاب ہے یہ قرآن۔ استحکام اور تفصیل دو چیزوں پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید کی تفسیر کے لئے ہم خود قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں القرآن یفسر بعضہ بعضا قرآن خود اپنا مفسر ہے۔ قرآن نے فرمایا کہ اس قرآن کی آیات کی دو قسمیں ہیں محکمات اور متشابہات، پھر محکمات کے بارے میں فرمایا ھن ام الکتاب یہ محکمات جو ہے کتاب اور قرآن کی بنیاد ہیں، ام ہیں و اخر متشابہات دوسرے جو متشابہات ہیں ان کو پلٹانا ہوتا ہے محکمات کی طرف، متشابہات کو محکمات کی روشنی میں سمجھنا ہوتا ہے تو اصل کتاب تو محکم ہے اس آیت میں بھی فرمایا اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ لہذا متشابہات کا ارجاع چونکہ محکمات کی طرف ہیں لہذا کل کا کل کتاب محکمات پر مشتمل ہے اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ محکم کیا ہے؟ محکم وہ آیات ہیں جس کے بیان میں کوئی ابہام نہیں، جس کے حقیقت بیانی میں کوئی خلل نہیں، جس کے بیان کردہ مضامین اور حکم میں کسی قسم کا لچک نہیں، محکم ہیں مضبوط اور مستحکم ہیں اور ایک ابدی اور ہمیشہ کا قانون اس میں موجود ہے، کسی قسم کی کمزوری اس میں نہیں ہے، مستحکم اور محکم ہے اس کے سمجھنے کے حوالے سے کہ ہر شخص کو اس کے فہم کے مطابق مطلب سمجھ میں آتا ہے جس مقدار کے لوگ مخاطب ہوتے ہیں اسی مقدار کا مطلب ہر مخاطب اخذ کر سکتا ہے عام آدمی عام مطلب اور خاص آدمی خاص مطلب، اہل فن اپنے فن کا اور اہل رموز رموزِ قرآن کا، اہل اسرار اسرارِ قرآن کا، اہل بطون بطونِ قرآن کا، قرآن کے بطن در بطن، معانی در معانی تہ بہ تہ، اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ قرآن مجید کی آیات محکم ہیں۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں اُحۡکِمَتۡ سے مراد ایک نکتہ ہے وہ توحید ہے، وہ استدلال کرتے ہیں اگلی آیت سے اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ وہ اُحۡکِمَتۡ جو محکم ہے ایک نکتہ ہے وہ نکتہ توحید ہے۔ بہر حال یہ ان کا اپنا نظریہ ہے لیکن یہاں پر آیات الٰہی کے استحکام کا ذکر ہو رہا ہے کہ درست ہے اپنی جگہ درست ہے کہ آیات کی تفسیر سے ہٹ کر اپنی جگہ درست ہے کہ تمام آیات کا نکتہ ارتکاز توحید ہے، لیکن یہاں پر آیات کے استحکام کا بیان ہے کہ آیات مستحکم ہیں ناقابل تغییر ہیں ناقابلِ تبدیل ہے اس میں کوئی خلل نہیں ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ محکم ہے۔
ثُمَّ فُصِّلَتۡ پھر ان محکم آیات کے اوپر تفصیلی احکام مترتب ہوتے ہیں ثُمَّ فُصِّلَتۡ وہ فصلت خود قرآن میں ہو یا قرآن سے باہر ہو، تفصیل جو ہے وہ قرآن میں بھی ہو سکتی ہے تفصیل سنت میں بھی ہو سکتی ہے قرآن پیش کرنے والے کی طرف سے قرآن کی تفصیل ہوتی ہے خود رسالت مآب مفصلِ قرآن ہیں۔ احکمت آیاتہ قرآن نے ایک مستحکم اور مضبوط حکم دیا اقم الصلاۃ نماز قائم کرو، اقیموا الصلواۃ واٰتو الزکاۃ، احکمت اٰیاتہ مستحکم اور مضبوط اور دائمی نظام میں، ثُمَّ فُصِّلَت پھر اس کی تفصیل آ جاتی ہے کہ نماز کس طرح پڑھنی ہے اور زکواۃ کس طرح دینا ہے اور باقی احکام، عقائد، اخلاقیات اور معاملات، پورے دستور حیات، نظام زندگی کامل اور مکمل نظام زندگی ہے ثُمَّ فُصِّلَتۡ میں، اسلامی نظام رسالت مآبصلىاللهعليهوآلهوسلم کا ایک معجزہ صرف یہ نہیں ہے رسالت مآبصلىاللهعليهوآلهوسلم نے دو عظیم معجزے پیش کئے ہیں۔ یہ آپ لوگوں کی نظر میں رہے دو عظیم معجزے ہیں ایک معجزہ خود قرآن ہے اور دوسرا معجزہ ایک جامع ترین نظامِ حیات دینا ہے جامع ترین نظامِ حیات کون دیتا ہے؟ ایک شخص جو مکے میں، حجاز میں زندگی کرتا تھا، حجاز کبھی بھی علمی مرکز نہیں رہا بتاتا ہوں آپ کو حجاز کبھی بھی علمی مرکز نہیں رہا، تار یخ میں علمی مراکز بہت رہے ہیں مصر میں تہذیب و تمدن علمی مرکز رہا، ہمارے ہندوستان میں بڑی تہذیب اور علمی مرکز رہا ہمارے سندھ میں ایک تہذیب، ہمارے ضلع راولپنڈی ادھر ٹیکسلا میں ایک تہذیب اور ایک علمی مرکز موجود تھا حجاز میں تھا پنڈی آگے تھا حجاز سے، ٹیکسلا میں آثار، تہذیب تمدن کے آثار اور علمی مراکز کے آثار ابھی بھی موجود ہیں حجاز میں کوئی میں علمی مرکز نہیں تھا اس وقت ساری دنیا میں بہت سے علمی مراکز ہیں قانون سازی کے اوپر لگے ہوئے ہیں پوری دنیا مل کر کے قانون بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ جامع نظامِ حیات جو رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اس معاشرے میں پیش کیا نہیں کر سکی ساری دنیا۔ یہ عظیم معجزہ ہے ایک معجزہ قرآن ہے اور ایک عظیم معجزہ رسالت مآب صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف سے پیش کردہ نظام حیات ہے جامع ترین نظام حیات۔
ہمارے ایک فقیہ نے فرمایا تھا ایک مسیحی سے، مسیحی نے کہا آپ لوگ کیوں اسلامی حکومت کا مطالبہ کرتے ہیں ہم لوگ مسیحی حکومت کا مطالبہ نہیں کرتے، ہمارے فقیہ نے فرمایا: آپ لوگ ٹھیک کرتے ہیں کیونکہ آپ کے ہاں کوئی نظامِ حیات نہیں ہے مسیحیت عقیدہ ہے ایک عقیدہ ہے صرف اور کچھ نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں ایک نظامِ حیات ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ اس کہ اس وقت کے ترقی یافتہ ترین دنیا کے ٹریفک کا نظام، ہم مفصل اپنے فقہی مصادر سے بیان کر سکتے ہیں جبکہ مدینہ میں کوئی ٹریفک نہیں تھی اونٹ چلتے تھے یا چند انسان چلتے تھے چند گلیوں میں، کوئی بڑا شہر بھی نہیں تھا کوئی ہجوم نہیں تھا کہ آنے جانے میں مشکلات درپیش ہو، کوئی مشکلات درپیش نہیں تھیں اس کے باوجود آج کے ترقی یافتہ ترین دنیا کے ٹریفک کا سارا نظام ہم اپنے فقہی مصادر سے بیان کر سکتے ہیں یہ عظیم معجزہ ہے رسالت مآب کا ۔
ثُمَّ فُصِّلَتۡ قرآن کی تفصیل، قرآن کی تشریح، قرآن کی تفسیر کی ذمہ داری کس کے اوپر ہے؟ سنت کے اوپر، سنت کی ذمہ داری ہے فرض منصبی ہے قرآن کی تشریح کرنا، آیات کی تفصیل بیان کرنا، لہذا میرا یہ خیال ہے کہ ثُمَّ فُصِّلَتۡ کی تفصیل سنت ہی کی ہے سنت کا فریضہ اور کام ہی سنت کا یہی ہے۔ کسی ہمارے اردو اہلِ قلم نے صحیح کہا تھا کہ اگر سنت سے ہٹ اگر قرآن سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایسا ہے جیسے بغیر ناخدا کے کشتی چلانے کی کوشش کی جائے، اچھی تشبیہ ہے صحیح کہا اس اردو اہلِ قلم نے کہ سنت کے بغیر قرآن یعنی تفصیل کے بغیر اس احۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ ان دونوں کو ملانے کے بعد ایک نظام ایک اور ایک جامع دستورِ حیات سامنے آتا ہے۔
مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ دیکھو فصلت کے بعد کیا فرمایا یہ محکم اور تفصیل ہے استحکام اور تفصیل دونوں ایک خبیر اور حکیم ذات کی طرف سے ہے کہ اس کا ہر حکم حکیمانہ، مصلحت سے بھر پور، خبر ہے اور اس کو کہ اس بشر کے لئے کون سا حکم بہتر ہے۔ حکیم یعنی ایک واقع بین ذات کی طرف سے، باخبر ذات کی طرف سے اس کی تفصیل اور استحکام ہے۔
اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾ وہ استحکام اور تفصیل کیا ہے؟ وہ استحکام اور تفصیل احۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ کا ان، اَن تفسیریہ ہے وہ استحکام وہ تفصیل ان دونوں کا خلاصہ کیا ہے؟ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ توحید صرف اللہ پرستش، اس میں خلاصہ ہوتا ہے اور اگر اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ کو منہا کرو نہ استحکام اور نہ تفصیل تو سارا بے معنی ہے، مرکزی نکتہ اور محور،ان تمام آیات کے، استحکام اور تفصیل کا محور توحید ہے اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ یہ ان تفسیریہ اگر ہم تسلیم کرتے ہیں تو یہ استحکام کے لئے بھی ہے اور تفصیل کے لئے بھی ہے ان دونوں کا خلاصہ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ ہے۔
اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾کہ میں تمہارے لئے تبنیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔ قرآن مجید نے بار بار اور بہت سی جگہوں پر لفظ نذیر استعمال کیا ہے بشیر سے زیادہ، نذارت کو، تبنیہ کو اہمیت زیادہ حاصل ہے بشارت سے۔ اس لئے نذارت تنبیہ کے بعد پوری انسانیت کی تنبیہ ہو جاتی ہے پھر پوری انسانیت کی تنبیہ کے بعد دس فیصد یا چار فیصد یا پانچ فیصد جو ہے وہ ہدایت پر آتے ہیں تو بشارت 5 فیصد کو ملتی ہے، تنبیہ تو سو فیصد کی ہونا ہوتی ہے پوری انسانیت کے لئے تنبیہ ضروری ہے اور تبنیہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے قرآن مجید میں، اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہ یعنی اللہ کی طرف سے نذیر و بشیر ہے یعنی رسول اللہ صلىاللهعليهوآلهوسلم کو یہ حکم ہے کہ آپ ان کو بتا دے میں اللہ کی طرف سے تہمارے لئے نذیر و بشیر ہوں۔
وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ﴿۳﴾
اس استحکام و تفصیل کا خلاصہ سب سے پہلے توحید ہے توحید عبودیت صرف اللہ تعالیٰ کی پرستش اور دوسری بات استغفار ہے وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ پھر اس کے آگے توبہ کرو یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا وہ تمہیں مقررہ مدت تک اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا، اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ اور ہر احسان کوش کو اس کی احسان کوشی کا صلہ دے گا وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ﴿۳﴾ اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔
آیات کی تفصیل اور آیات کے استحکام کا مرکزی نکتہ توحید ہے اور پھر یہ ہے کہ استغفار کرو اپنے رب سے ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ توبہ کرو، توبہ کا معنیٰ بتایا آپ کو متوجہ ہونا، اللہ کی طرف متوجہ رہو، گناہ کرو تو فورا اللہ کی طرف پلٹ کر دیکھو کہ کس کی نافرمانی کی ہے فورا بات سمجھ میں آجائے کہ میں نے کس کی نافرمانی کی ہے برا کیا ہے یہی توبہ ہے اور اگر گناہ کرنے کے بعد اللہ کی طرف مڑکے نہیں دیکھتا اللہ یاد نہیں آتا ذہن میں نہیں اترتا اللہ کا ذکر، یہ توبہ نہ کرنا ہے استغفار کرو ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ استغفار کے بعد اللہ کی طرف متوجہ رہا کرو استغفار کیا چیز ہے ؟ استغفار طلب مغفرت، بخشش طلب کرنا یہ وہ شخص کرتا ہے جس کے ضمیر جس کا وجدان بیدار ہو اور زندہ ہو جس کا ضمیر زندہ ہوتا ہے وہ استغفار کرتا ہے اور استغفار وہ کرتا ہے جو احساس گناہ کرتا ہے جو احساس گناہ نہیں کرتا وہ اصلاً استغفار نہیں کرتا۔
ہم لوگ بعض کام کرتے ہیں مثلاً غیبت ہے غیبت کے لئے ہمارے درمیان میں احساس گناہ بہت زبردست فقدان ہے ہم اس کو گناہ نہیں سمجھتے اور کبھی بھی غیبت کرنے کے بعد ہم استغفار نہیں کرتے ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ بھی نہیں ہوتے اللہ کی طرف متوجہ ہوتے پروردگار میرا رب میں نے برا کام کیا یہ بھی نہیں ہوتا غیبت کرتے ہیں پھر غیبت کرنے کے بعد نہ استغفار نہ توبہ کچھ بھی نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ وہ احساس زندہ نہیں ہے گناہ کا احساس نہیں ہے اس لئے گناہ کا احساس نہ ہونا سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس لئے اگر انسان کے پاس گناہ کا احساس ہے تو پھر وہ گناہ رہتا نہیں ہے التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ۔ الکافی ۲: ۴۳۵ گناہ سرزد ہوگیا نافرمانی ہو گئی بشر ہے انسان ہے بھول چوک ہوجاتی ہے لیکن جب دیکھا کہ میں نے اللہ کی نافرمانی کی ہے بہت برا کیا اے اللہ مجھے معاف کر دو کہ دیا اس کا گناہ ختم ہو گیا کان لا ذنب لہ ایسا جیسا گناہ کیا ہی نہیں ہے جس کا وجدان و ضمیر زندہ ہے احساس گناہ زندہ ہے لیکن جس کا احساس گناہ زندہ نہیں ہے وہ توبہ نہیں کرے گا استغفار نہیں کرے گا وہ رب کی بندگی بھی نہیں کرے گا استغفار کرنا اللہ کی بندگی کے آثار میں سے ہے اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اللہ کی بندگی کے آثار میں سے ایک اثر یہ ہے کہ استغفار اور توبہ کیا جائے۔
لہذا استغفار کرنا بندگی کی علامت ہے استغفار کرنا بہت بڑا مرتبہ رکھتا ہے کیون اسلئے اخر میں نے گناہ کیا ہے گناہ سے معافی مانگی ہے اس میں کونسا مرتبہ ہے؟ اس میں یہ مرتبہ ہے کہ تو ایک آزاد ضمیر انسان ہو اور بندگی کے راستے کے اوپر ہو۔ یہ فضیلت ہے کہ بندگی کے راستے کے اوپر ہو اس لئے تمہارے اندر احساس زندہ ہے اور تم کو گناہ گناہ لگتا ہے اور جو لوگ بندگی کے راستے میں نہیں ہیں ان کو گناہ گناہ نہیں لگتا، گناہ میں ہمیشہ رہتا ہے، پھر ایک بہت بڑا بوجھ گناہ کا جمع ہوتا ہے۔ ایک وہ حدیث، قابل توجہ حدیث ہے اس جگہ سیئۃ تسؤک خیر من حسنۃ تعجبک وہ گناہ جو تجھے برا لگے وہ بہتر ہے گناہ بہتر، گناہ کیسے بہتر ہوتا ہے وہ تسؤک نے بہتر کیا اس کو، جو تجھے برا لگے یعنی برا لگنے نے اس کو بہتر کیا کہ بندہ ابھی اللہ تعالیٰ کی بندگی کے لائن میں ہے حاضر اور آمادہ ہے ضمیر اس کا زندہ ہے من حسنۃ تعجبک اس نیکی سے جو تجھے خود پسندی میں مبتلا کرے، نیکی کر کے خود پسندی کرنا بندگی نہیں ہے برا کر کے برا لگنا بندگی ہے۔
وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ اگر استغفار کیا اور اللہ کی طرف متوجہ رہا توبہ انابت، اس کا کیا اثر ہوگا اس کا اثر ہوگا یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی اس کے دو آثار ہیں اللہ کی بندگی، استغفار، توبہ اس کے آثار کا بیان ہے۔
اک پہلا اس کا اثر یہ ہے یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا تم کو اس دنیا میں اچھی زندگی فراہم کرے گا متاعِ حسن، متاع یعنی سامانِ زیست، بہتر زندگی کے لئے سامان فراہم کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ہر صاحب فضل کو اس کا فضل دے دیا جائے گا امتیاز اور طبقاتی نظام یہاں نہیں ہوگا۔ دو باتیں ہیں ہر صاحب فضل کو اس کا فضل دے دیا جائے گا اور جس مقام کا وہ مستحق ہے وہ دے دیا جائے گا اور بہتر زندگی دے دی جائے گی۔
بہتر زندگی دے دی جائے گی اللہ کی عبادت کرنے والوں کو، استغفار کرنے والوں کو، توبہ والوں کو بہتر زندگی دے دی جائے گی متاعِ حیات، مادی سوچ رکھنے والا کہے گا متاعِ حیات بہتر زندگی دے دی جائے گی، بہتر کوٹھی، بہتر گاڑی،بہتر کھانا پینا، لباس، بود و باش یہ بہتر زندگی ہے یہ مجھے ملتی نہیں ہے میں نماز بھی پڑھتا ہوم نماز شب پڑھتا ہوں، استغفار بھی کرتا ہوں، توبہ بھی کرتا ہوں اللہ کی بندگی کرتا ہوں لیکن بہتر زندگی نہیں مل رہی۔ مادی سوچ رکھنے والے بہتر زندگی کی اپنی تشریح کرتا ہے۔ لیکن دین اور دنیا کی سمجھ رکھنے والا بہتر زندگی کی اپنی تشریح رکھتا ہے۔ سمجھدار انسان کی بہتر زندگی کی اپنی تشریح رکھتا ہے وہ تشریح کیا ہے وہ تشریح یہ ہے کہ اس کے ذیل میں بہت سی باتیں ہو سکتی ہے خلاصہ یہ ہے کہ بہتر زندگی کیا ہے بہتر زندگی یہ ہے کہ انسان اس دنیا میں امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزارے۔ ایک مفکر نے کہا تھا خوشحال کون ہے؟ خوشحالی کی تعریف کیا ہے ؟ انہوں نے کہا تھا خوشحالی کی تعریف یہ ہے کہ اس کی خوشی سستی ہو، ایک شخص سو روپیہ میں خوش ہوتا ہے وہ خوشحال ہے اور دوسرا سو ملین میں خوش نہیں ہوتا، وہ خوشحال نہیں ہے وہ اور پریشان ہو جاتے ہیں اس کی نیند اور اڑ جاتی ہے اگر آپ کو سو ملین مل جائے آپ کی نیند اڑ جائے گی اور آپ یہاں نہیں ہونگے کہیں اور ہوں گے اور دربدر کی ٹھوکریں کھانا شروع کریں گے کیونکہ آپ کی خواہشات کا درندہ بیدار ہوگا اور وہ سینگ مارنا شروع کر دے گا ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر لے جائے گا وہ درندہ، سو ملیںین مل گیا نا آپ کو تو آپ کا وہ درندہ خواہشات کا درندہ بیدار ہو جائے گا اور سینگ مارنا شرع کر دے گا وہ متاعِ حسن نہیں ہے یہ ایک آزمائش ہے امتحان ہے عذاب ہے اللہ تعالیٰ برے بندوں کو اس عذاب میں ڈالتا ہے اچھے بندوں کو بہتر زندگی دیتا ہے وہ دس روپے بیس روپے میں خوش ہوتا ہے خوش سوتا ہے امن و سکون کی زندگی اور آرام کی زندگی کرتا ہے، اللہ کی بندگی میں لطف اندوز ہوتا ہے متاع حسن دینگے ہم ان کو، استغفار کرنے سے متاع حسن، توبہ کرنے سے متاع حسن زندگی میں، اور اس کو جس فضل اور مقام کا وہ مستحق ہے وہ اس کو دے دیا جائے گا بغیر امتیاز کے۔