جہاد کا فلسفہ


فَاِذَا انۡسَلَخَ الۡاَشۡہُرُ الۡحُرُمُ فَاقۡتُلُوا الۡمُشۡرِکِیۡنَ حَیۡثُ وَجَدۡتُّمُوۡہُمۡ وَ خُذُوۡہُمۡ وَ احۡصُرُوۡہُمۡ وَ اقۡعُدُوۡا لَہُمۡ کُلَّ مَرۡصَدٍ ۚ فَاِنۡ تَابُوۡا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوۡا سَبِیۡلَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۵﴾

۵۔ پس جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکین کو تم جہاں پاؤ قتل کرو اور انہیں پکڑو اور گھیرو اور ہر گھات پر ان کی تاک میں بیٹھو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں تو ان کا راستہ چھوڑ دو، بیشک اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

5۔ حرمت کے چار مہینے سے مراد وہ چار مہینے ہیں جن کی مہلت دی گئی ہے۔ مہلت کے یہ چار مہینے گزر جائیں تو مسلمانوں کو یہ حکم ملتا ہے کہ وہ مشرکین کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں اور اللہ کی زمین کو ان کے ناپاک وجود سے پاک کریں۔ یہ وہ مشرکین ہیں جن کو گزشتہ 22 سالوں سے اسلام کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس دوران میں ان لوگوں نے مسلمانوں کو ہر قسم کی اذیت دی، ان کو گھروں سے نکالا،ان کے خلاف کئی جنگیں لڑیں اور کوئی ایسا ظلم و زیادتی نہیں چھوڑی جو وہ کر سکتے تھے۔ ان تمام باتوں کے باوجود آج مسلمانوں کو یہ حکم مل رہا ہے کہ اگر وہ توبہ کریں اور اسلامی شعائر پر عمل پیرا ہوں تو ان سے معترض نہ ہوں ان کو امن و آزادی دیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین کو قتل کرنے کا حکم کوئی انتقامی یا نسل کشی کا عمل نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حکمت عملی ہے۔ مخلوق خدا کو امن و سکون دینے کے لیے اور لوگوں کو راہ راست کی طرف دعوت دینے کا ایک اسلوب ہے۔