بیعت رضوان


اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ یَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِمَا عٰہَدَ عَلَیۡہُ اللّٰہَ فَسَیُؤۡتِیۡہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ بتحقیق جو لوگ آپ کی بیعت کر رہے ہیں وہ یقینا اللہ کی بیعت کر رہے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے، پس جو عہد شکنی کرتا ہے وہ اپنے ساتھ عہد شکنی کرتا ہے اور جو اس عہد کو پورا کرے جو اس نے اللہ کے ساتھ کر رکھا ہے تو اللہ عنقریب اسے اجر عظیم دے گا۔

10۔ یہ بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ میدان جنگ سے راہ فرار اختیار نہیں کریں گے۔ اس بیعت کو الٰہی قرار دے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا۔

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

18۔ ان بیعت کرنے والوں کے قلب میں جو جذبہ ایثار و قربانی موجزن تھا، اس بنا پر اللہ نے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا۔ چونکہ اصحاب بیعت اس وقت صادق الایمان، رسول ﷺ کے وفادار اور خلوص کے اعلی درجہ پر فائز تھے، اس لیے وہ اللہ کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس سے بالاتر کوئی کامیابی نہیں ہے۔ درست ہے کہ اللہ کی طرف سے سند خوشنودی عطا ہونے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا مقابلہ ان سے نہیں، بلکہ اللہ سے ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ بیعت جنگ سے فرار نہ کرنے کا ایک عہد تھی۔ اگر بعد میں کسی نے عہد شکنی کی تو اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ان ہستیوں کی صف میں شروع سے شامل ہی نہ تھا جن سے اللہ راضی ہوا ہے۔ چنانچہ بیعت رضوان کی پہلی آیت میں بیعت کے ذکر کے بعد فرمایا: فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۔ جو اس عہد کو توڑے گا، اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا۔ چنانچہ جنگ حنین میں جب لوگ جنگ سے بھاگ گئے تو حضرت ابن عباس کو بیعت رضوان کا حوالہ دے کر بلانا پڑا۔

فَتۡحًا قَرِیۡبًا : اس قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے۔

لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے، پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا، لہٰذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح عنایت فرمائی۔

18۔ ان بیعت کرنے والوں کے قلب میں جو جذبہ ایثار و قربانی موجزن تھا، اس بنا پر اللہ نے اپنی رضایت کا اعلان فرمایا۔ چونکہ اصحاب بیعت اس وقت صادق الایمان، رسول ﷺ کے وفادار اور خلوص کے اعلی درجہ پر فائز تھے، اس لیے وہ اللہ کی رضایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس سے بالاتر کوئی کامیابی نہیں ہے۔ درست ہے کہ اللہ کی طرف سے سند خوشنودی عطا ہونے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس کا مقابلہ ان سے نہیں، بلکہ اللہ سے ہے۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ بیعت جنگ سے فرار نہ کرنے کا ایک عہد تھی۔ اگر بعد میں کسی نے عہد شکنی کی تو اس سے انکشاف ہوتا ہے کہ وہ ان ہستیوں کی صف میں شروع سے شامل ہی نہ تھا جن سے اللہ راضی ہوا ہے۔ چنانچہ بیعت رضوان کی پہلی آیت میں بیعت کے ذکر کے بعد فرمایا: فَمَنۡ نَّکَثَ فَاِنَّمَا یَنۡکُثُ عَلٰی نَفۡسِہٖ ۔ جو اس عہد کو توڑے گا، اس کی عہد شکنی کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا۔ چنانچہ جنگ حنین میں جب لوگ جنگ سے بھاگ گئے تو حضرت ابن عباس کو بیعت رضوان کا حوالہ دے کر بلانا پڑا۔

فَتۡحًا قَرِیۡبًا : اس قریبی فتح سے مراد فتح خیبر ہے۔