رسولؐ کے بلانے پر لبیک کہنا


لَا تَجۡعَلُوۡا دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ بَیۡنَکُمۡ کَدُعَآءِ بَعۡضِکُمۡ بَعۡضًا ؕ قَدۡ یَعۡلَمُ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ یَتَسَلَّلُوۡنَ مِنۡکُمۡ لِوَاذًا ۚ فَلۡیَحۡذَرِ الَّذِیۡنَ یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ فِتۡنَۃٌ اَوۡ یُصِیۡبَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۶۳﴾

۶۳۔ تمہارے درمیان رسول کے پکارنے کو اس طرح نہ سمجھو جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، تم میں سے جو دوسروں کی آڑ میں کھسک جاتے ہیں اللہ انہیں جانتا ہے، جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات کا خوف لاحق رہنا چاہیے کہ مبادا وہ کسی فتنے میں مبتلا ہو جائیں یا ان پر کوئی دردناک عذاب آجائے۔

63۔ دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ کا مطلب رسول ﷺ کو پکارنا بھی ہو سکتا ہے اور رسول ﷺ کا پکارنا بھی۔ پہلی صورت میں اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو رسول ﷺ کو اس طرح یا محمد ﷺ کہکر مت پکارو۔ رسول ﷺ خود تواضع ضرور فرماتے ہیں لیکن امت کو رسالت کی منزلت و مقام کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

دوسری صورت میں یہ معنی بنتے ہیں: رسول ﷺ کے بلانے کو عام آدمیوں کے بلانے کی طرح نہ سمجھو۔ رسول ﷺ کا بلانا اللہ کا بلانا ہے۔ اسی لیے رسول ﷺ کے بلانے پر فوری لبیک کہنا ایمان کا تقاضا ہے۔ اگر کوئی رسول ﷺ کے بلانے پر لبیک نہ کہے تو اس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ وہ رسول ﷺ کو دل سے نہیں مانتا۔ اسی وجہ سے اگر نماز کی حالت میں بھی ہو تو رسول ﷺ کے بلانے پر فوری لبیک کہنا فرض ہے، جبکہ بعض حضرات نے رسول ﷺ کے بلانے پر کھانے کو ترک نہیں کیا تھا اور کھاتے رہے، رسول ﷺ کی آواز پر لبیک نہیں کہی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے بددعا دی: لا اشبع اللہ بطنہ ۔ خدا اس کے شکم کو سیرنہ کرے۔ (صحیح مسلم باب من لعنہُ النبی 16: 133 ح6580)

یُخَالِفُوۡنَ عَنۡ اَمۡرِہٖۤ : رسول اللہ ﷺ کی حیات میں جن لوگوں نے رسول کے حکم کی مخالفت کی ہے، وہ رسول ﷺ کے بعد یا تو فتنے میں مبتلا ہوں گے یا عذاب الیم میں اور اس جملے میں عَنۡ اَمۡرِہٖۤ قرینہ ہے کہ دُعَآءَ الرَّسُوۡلِ سے مراد رسول ﷺ کا حکم ہے۔ اس آیت کا تیسرا مطلب یہ لیا جاتا ہے: رسول ﷺ کی دعا، عام آدمی کی دعا نہ سمجھو۔ یعنی رسول ﷺ کی بددعا کو دوسروں کی بددعا کی طرح نہ سمجھو۔ اس لیے کہ آپ ﷺ کی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس لیے نبی کی بددعا مت لو تم ہلاک ہو جاؤ گے۔ اس تفسیر کے مطابق وہ توجیہ قرآن کے خلاف ہو جائے گی جس میں کہا جاتا ہے کہ رسول ﷺ کسی پر لعنت یا سَبْ کریں یا بددعا دیں تو وہ اس کے لیے اجر و رحمت بن جاتی ہے۔ یعنی رسول ﷺ اس پر لعنت کر رہے ہیں، وہ لعنت رحمت میں تبدیل ہو جائے گی۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم جلد دوم باب من لعنہُ النبی