رسولؐ اور وحی


وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾

۳۔ وہ خواہش سے نہیں بولتا۔

3۔ تمہارا رفیق جو باتیں بیان کرتا ہے وہ صرف وحی ہے، اس کی اپنی خواہش کو اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ بھٹکتا بہکتا وہ ہے جس پر ذاتی خواہش حاکم ہو۔ آیت کے اطلاق میں وہ تمام فرامین شامل ہیں جو حضور ﷺ نے اپنی امت سے بیان فرمائے ہیں۔ اگر وحی اسلوب کلام و معانی میں بطور معجزہ نازل ہوئی ہے تو وہ قرآن ہے، ورنہ سنت رسول ﷺ ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی حیات میں لوگوں نے سنت کی تدوین کی مخالفت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اکتبوا فو الذی نفسی بیدہ ما خرج منی الا الحق ۔ (سنن الدارمی حدیث 484 باب کتابۃ العلم) لکھو! جس ذات کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی قسم! میری زبان سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلی۔ مگر ستم یہ کہ حدیث کی تدوین پر حکمرانوں کی طرف سے دوسری صدی ہجری تک پابندی رہی۔ البتہ اہل بیت علیہ السلام کے پیروکاروں کے ہاں عصر رسول ﷺ ہی میں حدیث کی تدوین املاء من رسول اللہ ﷺ و بخط علی علیہ السلام ہوئی۔ جو کتاب علی کے نام سے مشہور ہے۔ بدقسمتی سے معاندانہ پروپیگنڈوں نے اس خصوصیت کو طعن میں بدلنے کی کوشش کی اور مشہور کیا گیا کہ ان کے ہاں ستر گز کا قرآن الگ ہے۔ معاذ اللہ۔ اس موضوع کی تفصیل کے لیے مصر کے دانشمند عبد الحلیم الجندی کی کتاب الامام الصادق علیہ السلام کا مطالعہ فرمائیں۔