نبی اور علم غیب


عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ وہ غیب کا جاننے والا ہے اور اپنے غیب کسی پر ظاہر نہیں کرتا۔

26۔ علم غیب ذاتی طور پر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے۔ اس آیت میں فرمایا: البتہ رسولوں میں سے جسے ہم برگزیدہ کرتے ہیں، اس پر غیب کا اظہار کرتے ہیں۔ رسولوں میں انسان اور ملائکہ دونوں شامل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا برگزیدہ رسول کے پاس بھی علم غیب آ سکتا ہے، مگر یہ اس رسول کا ذاتی علم نہ ہو گا بلکہ اللہ کی طرف سے تعلیم شدہ علم ہو گا۔ تیسرے درجے پر اولیائے کرام ہوں گے جو رسول ﷺ سے براہ راست تعلیم لیتے ہیں۔

بصائر الدرجات ص 293 میں آیا ہے: لا یُعَلِّمُ اللہ محمداً علماً اِلا و امرہ ان یعلّم علیا ۔ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو کوئی تعلیم نہیں دی مگر یہ کہ حکم دیا کہ یہ علی کو سکھائیں۔ شرجیل نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔

اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسۡلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنۡ خَلۡفِہٖ رَصَدًا ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ سوائے اس رسول کے جسے اس نے برگزیدہ کیا ہو، وہ اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے۔

27۔ یَسۡلُکُ مِنۡۢ : اس جملے میں فرمایا کہ جب رسول ﷺ پر راز ہائے غیب نازل کرنا ہو تو نگہبانوں کے تحفظ میں یہ راز دیا جاتا ہے اور صرف قلب رسول ﷺ کے تحفظ میں دیا جاتا ہے۔ آگے رسول ﷺ یہ علم صرف اہل ہستیوں کے سپرد فرماتے ہیں۔