ادراک وحی کی کیفیت


سَنُقۡرِئُکَ فَلَا تَنۡسٰۤی ۙ﴿۶﴾

۶۔ (عنقریب) ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے،

6۔ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لی ہے، لہٰذا قرآن کے تحفظ کا اولین مرحلہ یہی ہے کہ جس ہستی کے سینے پر قرآن نازل کیا جا رہا ہے، اس سینے میں وہ حفظ ہو جائے اور عدم نسیان اس کا لازمہ ہے۔ ہم نے کئی بار پہلے بھی اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول کریم وحی کو اپنے حواس ظاہری کے ذریعے وصول نہیں کرتے تھے، بلکہ آپ ﷺ وحی کو اپنے پورے وجود کے ساتھ وصول فرماتے تھے۔ اپنے وجود کو نہ بھولا جا سکتا ہے، نہ اس میں غلطی سرزد ہو سکتی ہے۔ لہٰذا صحیح بخاری کی وہ روایت صریح قرآن کے خلاف ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی طرف ایک آیت کی فراموشی کی نسبت دی گئی ہے۔ الا ماشاء اللہ کا استثنیٰ صرف اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اللہ آپ ﷺ سے اس وحی کو سلب کرنا چاہے تو پھر آپ بھول سکتے ہیں، مگر اللہ ایسا نہیں کرے گا۔ چنانچہ سورہ بنی اسرائیل آیت 86 ۔ 87 میں فرمایا: وَ لَئِنۡ شِئۡنَا لَنَذۡہَبَنَّ بِالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَکَ بِہٖ عَلَیۡنَا وَکِیۡلًا ۔ اور اگر ہم چاہیں تو ہم نے جو کچھ آپ کی طرف وحی کی ہے وہ سلب کر لیں، پھر آپ کو ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی نہیں ملے گا۔ اِلَّا رَحۡمَۃً مِّنۡ رَّبِّکَ ؕ اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ۔ سوائے آپ کے رب کی رحمت کے، آپ پر اس کا بڑا فضل ہے۔ یعنی اللہ کی رحمت اور فضل کے ہوتے ہوئے یہ وحی سلب نہیں ہو سکتی۔