حلول کی نفی


فَلَمَّا جَآءَہَا نُوۡدِیَ اَنۡۢ بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا ؕ وَ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۸﴾

۸۔ جب موسیٰ آگ کے پاس پہنچے تو ندا دی گئی: بابرکت ہو وہ (جس کا جلوہ) آگ کے اندر ہے اور (بابرکت ہو) وہ جو اس کے پاس ہے اور پاکیزہ ہے سارے جہاں کا رب اللہ۔

بُوۡرِکَ مَنۡ فِی النَّارِ بابرکت ہے وہ جو آگ کے اندر ہے۔ یعنی بابرکت ہے وہ جس کا جلوہ آگ کے اندر ہے۔ وَ مَنۡ حَوۡلَہَا بابرکت ہے وہ جو اس آگ کے گرد و پیش میں ہے، یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔ یعنی وہ ذات جو ندا دے رہی ہے اور وہ جو یہ ندا سن رہا ہے، دونوں بابرکت ہیں۔ البتہ اللہ کی ذات بذات خود بابرکت ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کی طرف سے بابرکت ہو گئے ہیں۔ واضح رہے یہ روشنی بظاہر دیکھنے میں آگ نظر آتی تھی، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اسے آگ تصور کیا تھا، اس لیے اسے آگ کہا، ورنہ درحقیقت یہ نار نہیں، نور تھا۔

سُبۡحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ سے اس وہم و گمان کا ازالہ ہو جاتا ہے کہ اللہ آگ میں یا درخت میں حلول ہو گیا ہے۔ (پاک و منزہ ہے وہ ذات ہر احتیاج سے)۔