اسلام اورجاہلیت میں بیوہ کی حیثیت


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اپنی عورتوں کے جبراً وارث بنو اور اس نیت سے انہیں قید نہ رکھو کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ مبینہ بدکاری کی مرتکب ہوں اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں تو ناپسند ہو مگر اللہ اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دے۔

19۔ زمان جاہلیت میں سوتیلی اولاد باپ کے مرنے کی صورت میں باپ کی منکوحہ کے سر پر چادر ڈال کر اسے اپنی میراث بنا لیتی۔ ان عورتوں کو عقد ثانی کی اجازت بھی نہ تھی اور ان عورتوں کے ساتھ اس غرض سے زیادتی کی جاتی تھی کہ وہ پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کر دیں۔ اسلام نے ان تمام غیر انسانی مراسم کو ختم کر کے عورت کو اس کی انسانی حیثیت واپس دلائی۔