مفاد پرست مسلمانوں کی خصوصیات


وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّقُوۡلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَاۤ اُوۡذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتۡنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ؕ وَ لَئِنۡ جَآءَ نَصۡرٌ مِّنۡ رَّبِّکَ لَیَقُوۡلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ؕ اَوَ لَیۡسَ اللّٰہُ بِاَعۡلَمَ بِمَا فِیۡ صُدُوۡرِ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے تو ہیں: ہم اللہ پر ایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الٰہی کی مانند تصور کرتے ہیں اور اگر آپ کے رب کی طرف سے مدد پہنچ جائے تو وہ ضرور کہتے ہیں: ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا اللہ کو اہل عالم کے دلوں کا حال خوب معلوم نہیں ہے؟

10۔ امن و آسائش کے دنوں میں ایمان کا اعلان کرتے ہیں، لیکن ایمان کی راہ میں جب تکلیف اٹھانی پڑے تو یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ایمان نہ بھی لاتے تو اللہ کا عذاب، کیا اس عذاب سے بڑا ہوتا؟ اور فتح و نصرت آنے کی صورت میں اپنی وفاداری کا ڈنکا بجاتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں جو ان کے دلوں کے حال سے ناواقف ہیں۔ مکہ میں فتح و نصرت کا کوئی مرحلہ ابھی نہیں آیا تھا۔ ممکن ہے یہ آیت مدنی ہو، مگر یہ کہ نَصۡرٌ سے مراد ہر قسم کی کامیابی لیا جائے، لیکن مکہ میں اِنَّا کُنَّا مَعَکُمۡ ہم تمہارے ساتھ ہیں، کا مرحلہ تو نہیں آیا تھا۔ اس میں یہ توجیہ بعید معلوم ہوتی ہے کہ اس سے مراد امکان وقوع ہے، تحقق نہیں ہے۔ یعنی یہ بتانا مقصود ہے کہ آئندہ ایسا ہو سکتا ہے۔