ذاتی و قومی معاہدوں کا حکم


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ ۬ؕ اُحِلَّتۡ لَکُمۡ بَہِیۡمَۃُ الۡاَنۡعَامِ اِلَّا مَا یُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ غَیۡرَ مُحِلِّی الصَّیۡدِ وَ اَنۡتُمۡ حُرُمٌ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَحۡکُمُ مَا یُرِیۡدُ﴿۱﴾

۱۔ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورا کیا کرو، تمہارے لیے چرنے والے مویشی حلال کیے گئے ہیں سوائے ان کے جو (آئندہ) تمہیں بتا دیے جائیں گے مگر حالت احرام میں شکار کو حلال تصور نہ کرو، بیشک اللہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

1۔ یہاں عہد و پیمان کا اطلاق ہر قسم کے عہد و پیمان پر ہوتا ہے جو ہر انسان اور ہر قوم کو اپنی اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں عہد و پیمان کی پابندی ضروری نہ ہو، وہاں عدل و انصاف ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ انسان کے مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے انفرادی زندگی گزارنا اس کے لیے ناممکن ہے اور اجتماعی زندگی انہیں معاہدوں سے عبارت ہے کہ انسان دوسروں کے ساتھ خرید و فروخت، مناکحہ اور مصالحت وغیرہ کے لیے عہد و پیمان باندھتے ہیں۔ اس قسم کے تمام معاہدے قرآن کی روسے واجب الوفا ہیں، خواہ وہ عہد فرد کا فرد کے ساتھ ہو یا ایک قوم کا کسی قوم کے ساتھ۔ حتیٰ اگر مسلمان کافروں کے ساتھ بھی کوئی معاہدہ کرتے ہیں تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔