اسلام میں مالکیت اور ملی نظارت


وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۵﴾

۵۔ اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔

وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۶﴾

۶۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کا سرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھا سکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

5۔ 6۔ مال کے بارے میں اسلام کا تصور اس طرح ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہے اور پوری امت کو اللہ کی طرف سے اس مال پر نظارت کا حق حاصل ہے۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ (57: 7) یعنی اس کو انفرادی تصرف میں دینے کے لیے فرد کی صلاحیت دیکھیں گے۔ اگر فرد میں عقل و رشد کے اعتبار سے معقول تصرف کرنے کی صلاحیت نہیں تو اس مال کی پوری امت امین ہے۔ ایسے فرد کے تصرف میں مال نہیں دیا جائے گا۔