فئی کی تشریح اور مصرف


وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡہُمۡ فَمَاۤ اَوۡجَفۡتُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ خَیۡلٍ وَّ لَا رِکَابٍ وَّ لٰکِنَّ اللّٰہَ یُسَلِّطُ رُسُلَہٗ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۶﴾

۶۔ اور ان کے جس مال (فئی) کو اللہ نے اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے (اس میں تمہارا کوئی حق نہیں) کیونکہ اس کے لیے نہ تو تم نے گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ، لیکن اللہ اپنے رسولوں کو جس پر چاہتا ہے غالب کر دیتا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب قادر ہے۔

6۔ گھوڑے اور اونٹ دوڑانے سے مراد جنگ ہے۔ یعنی جو مال بغیر جنگ کے ہاتھ آئے اسے فئی کہتے ہیں۔ اس کا حکم جنگی غنیمت سے مختلف ہے۔

لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُہٰجِرِیۡنَ الَّذِیۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اَمۡوَالِہِمۡ یَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا وَّ یَنۡصُرُوۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ۚ﴿۸﴾

۸۔(یہ مال غنیمت) ان غریب مہاجرین کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور اموال سے بے دخل کر دیے گئے جو اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں نیز اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی لوگ سچے ہیں۔

8۔ یعنی غنیمت میں سے مہاجرین کو بھی دیا جائے گا۔ بعض کے نزدیک الۡمُہٰجِرِیۡنَ کا ربط ذی القربی اور اس کے بعد سے ہے۔ اللہ کا نام صرف تبرکاً مذکور ہے۔ اس صورت میں اس کے دو حصے بن جاتے ہیں: ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کا دوسرا حصہ مہاجرین کا۔ بعض کے نزدیک الۡمُہٰجِرِیۡنَ یتیموں، مسکینوں اور مسافروں سے مربوط ہے۔ اس صورت میں اس کے تین حصے ہوں گے: ایک رسول اللہ ﷺ کا دوسرا ذوی القربی کا تیسرا مہاجرین کا ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اس مسئلے میں مؤقف یہ ہے کہ الۡمُہٰجِرِیۡنَ کا تعلق سبیل اللہ سے ہے۔ یعنی جو حصہ سبیل اللہ کا ہے، اس کے مصرف کا ذکر ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی اس پر شاہد ہے کہ آپ ﷺ نے اس غنیمت کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا: سبیل اللہ کا حصہ، اپنا حصہ، ذوی القربی کا حصہ اور مہاجرین کو سبیل اللہ سے دیا اور انصار کو نہیں دیا، سوائے تین افراد کے جن کو سبیل اللہ سے دیا، ورنہ آیت میں انصار کا حصہ نہیں ہے۔