نیک اعمال کا بھاری ہونا


وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے، پھر جن (کے اعمال) کا پلڑا بھاری ہو گا پس وہی فلاح پائیں گے ۔

8 ۔ 9 آیت سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ نیکیوں کا وزن ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں گناہوں کا وزن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اعمال کے وزن کے بارے میں کسی تاویل و توجیہ کی طرف جانے کی بجائے خود قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ مؤقف اختیار کرنا درست ہو گا۔ انسان کے اعمال اللہ کے معیار کے مطابق یا مثبت ہوں گے یا منفی۔ مثبت اعمال کا قیامت کے دن وزن اور قیمت ہو گی اور منفی اعمال بے وزن اور بے قدر ہوں گے۔ چنانچہ زیر بحث آیت اور دیگر متعدد آیات میں نیکیوں کے لیے وزن ثابت کیا ہے اور گناہوں کو بے وزن کہا ہے۔ قرآنی تعبیر ثَقُلَتۡ اور خَفَّتۡ میں وہی موازنہ ہے جو مثبت اور منفی میں، قیمتی اور بے قدری میں ہے۔ لہٰذا ثقل سے وزن، قدر اور قیمت کی طرف اشارہ ہے اور خفت سے بے قیمت اور بے قدری کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح اعمال کے وزن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں اس کا مثبت پہلو غالب رہے گا اور وہ فلاح پائیں گے اور جس کا منفی پہلو غالب آیا ہو ہلاکت میں ہو گا۔

وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور جن کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لوگ ہماری آیات سے زیادتی کے سبب خود گھاٹے میں رہے۔