کائنات کی اصل منزل


اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۟ مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَاۤ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَآیِٔ رَبِّہِمۡ لَکٰفِرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ کیا انہوں نے اپنے (دل کے) اندر یہ غور و فکر نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو برحق اور معینہ مدت کے لیے خلق کیا ہے؟ اور لوگوں میں یقینا بہت سے ایسے ہیں جو اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں۔

فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ : کیا وہ اپنے اندر، یعنی اپنے دل میں نہیں سوچتے کہ اس کائنات کو عبث اور لغو نہیں، ایک مقصد و حکمت کے تحت بنایا ہے اور ایک مدت معین کے لیے خلق کیا ہے۔ اس معین مدت کے بعد آخرت کا عالم شروع ہو گا۔ بعض نے فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ کے معنی یہ کیے ہیں: کیا انہوں نے اپنے وجود کے بارے میں فکر نہیں کیا۔ لیکن یہ معنی سیاق آیت کے خلاف ہے۔ اگرچہ اپنی جگہ یہ بات بھی درست ہے کہ انسان خود اپنے بارے میں فکر کرے تو سمجھ جاتا ہے کہ اس انسان کو اللہ نے اس دنیاوی زندگی کے لیے نہیں بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو جس قدر اس زندگی کی آسائشیں اسے مل جاتیں اسی قدر اسے زیادہ سکون مل جاتا، جبکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ جس قدر کسی کے پاس یہ دنیا زیادہ آتی ہے وہ زیادہ بے سکون ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کائنات کی اصل منزل دنیوی زندگی نہیں ہے۔