امت قرآنی کے لیے قابل توجہ نکات


فَہَزَمُوۡہُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ۟ۙ وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَ اٰتٰىہُ اللّٰہُ الۡمُلۡکَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَہٗ مِمَّا یَشَآءُ ؕ وَ لَوۡ لَا دَفۡعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعۡضَہُمۡ بِبَعۡضٍ ۙ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۵۱﴾

۲۵۱۔ چنانچہ اللہ کے اذن سے انہوں نے کافروں کو شکست دی اور داؤد نے جالوت کو قتل کر دیا اور اللہ نے انہیں سلطنت و حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا انہیں سکھا دیا اور اگر اللہ لوگوں میں سے بعض کا بعض کے ذریعے دفاع نہ فرماتا رہتا تو زمین میں فساد برپا ہو جاتا، لیکن اہل عالم پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

251۔ گزشتہ آیات میں چند اہم نکات امت قرآن کے لیے قابل توجہ ہیں۔ 1۔ جہاد بالمال کو تقدیر ساز مقام حاصل ہے۔ 2۔ امتوں کی کامیابی کے لیے واحد ذریعہ جہاد ہے۔ 3۔ فرار از جنگ ایک عار و ننگ ہے۔ 4۔ قوم پر فوری اعتماد کرنے سے پہلے امتحانی مراحل سے گزارنا چاہیے۔ 5۔ طاقت کا توازن اللہ کے ہاتھ میں ہے اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ 6۔ صبر و استقلال ہو تو ایک قلیل جماعت بہت بڑی جماعت پر غالب آسکتی ہے۔

وَ قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ : عین لڑائی کے موقع پر حضرت داؤد علیہ السلام طالوت کے لشکر میں پہنچے جب جالوت دعوت مبارزہ دے رہا تھا۔ اس طرح ایک قلیل جمعیت نے بہت بڑے لشکر کو شکست دی۔ کیونکہ عسکری قیادت نے اپنے لشکر کو کڑی آزمائش سے گزارا پھر تعداد پر نہیں استعداد پر بھروسا کیا۔ اس کارنامے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام ہر دلعزیز شخصیت بن گئے اور طالوت نے اپنی بیٹی ان سے بیاہ دی، بعد میں وہی اسرائیلیوں کے پیشوا ہو گئے۔