کلام ما فوق بشر


وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتٍ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلۡحَقِّ لَمَّا جَآءَہُمۡ ۙ ہٰذَا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو جب حق ان کے پاس آ جاتا ہے تو کفار کہتے ہیں: یہ تو صریح جادو ہے۔

7۔ قرآن کو جادو قرار دینا خود اپنی جگہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی بشر کا کلام نہیں ہو سکتا۔ اس کلام کے مضامین اس کا طرز کلام کسی بشری کلام سے نہیں ملتا، نہ یہ کلام اس دور کے کسی ماحول سے متاثر نظر آتا ہے، نہ اس میں کسی موجودہ ثقافت کی چھاپ نظر آتی ہے۔

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَلَا تَمۡلِکُوۡنَ لِیۡ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَا تُفِیۡضُوۡنَ فِیۡہِ ؕ کَفٰی بِہٖ شَہِیۡدًۢا بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿۸﴾

۸۔ کیا یہ کہتے ہیں: اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ کہدیجئے: اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے (بچاؤ کا) کوئی اختیار نہیں رکھتے، تم اس (قرآن) کے بارے میں جو گفت و شنید کرتے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے اور میرے درمیان اور تمہارے درمیان اس پر گواہی کے لیے وہی کافی ہے اور وہی بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

8۔ اگر میں نے اس قرآن کو خود گھڑ کر اللہ کی طرف نسبت دی ہے تو اللہ مجھے اس جرم میں اپنی گرفت میں لے گا۔ اس وقت مجھے اللہ سے کون بچائے گا؟ تم لوگ؟ تمہارے پاس بھی کوئی ایسا اختیار نہیں ہے۔