نور خدا حضرت علیؑ کی نگاہ میں


ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ ۚ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

3۔ اللہ کا اول ہونا زمانہ کے لحاظ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ زمانے سے ماوراء ہے۔ حدیث میں آیا ہے: کان اللہ و لا شیٔ غیرہ ۔ (الکافی 1: 117) اللہ اس وقت بھی تھا، جب اس کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی چیز موجود نہ تھی، اس وقت بھی وہ قادر مطلق موجود تھا۔ وَ ہُوَ ظَّاہِرُ ۔ اس کائنات میں ہر چیز اس کی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ تاریکی کو روشنی سے اور خوبصورتی کو بدصورتی سے۔ اللہ کے لیے کوئی ضد نہیں۔ وہ ایسا نور ہے جس کے مقابلے میں کوئی تاریکی نہیں۔ اس وجہ سے ظاہری حواس کے لیے اس نور کا ادراک ممکن نہیں۔ اسی سلسلے میں مولائے متقیان سے روایت ہے: و ابین مما تری العیون ۔ (نہج البلاغۃ) تیرا وجود نگاہوں میں آنے والی چیزوں سے بھی روشن ہے۔