ارتکاز دولت کی روک تھام


مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ مِنۡ اَہۡلِ الۡقُرٰی فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ ؕ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ۘ﴿۷﴾

۷۔ اللہ نے ان بستی والوں کے مال سے جو کچھ بھی اپنے رسول کی آمدنی قرار دیا ہے وہ اللہ اور رسول اور قریب ترین رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے تاکہ وہ مال تمہارے دولت مندوں کے درمیان ہی گردش نہ کرتا رہے اور رسول جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ کا خوف کرو، اللہ یقینا شدید عذاب دینے والا ہے۔

7۔ اس آیت میں مَاۤ اَفَآءَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ سے مراد مال غنیمت ہے جبکہ آیت 6 میں صرف مال فئی مراد ہے۔ ان بستیوں سے مراد بنی قریظہ، بنی نضیر، فدک، خیبر، عرینہ اور ینبع کے علاقے ہیں۔ پہلا حصہ اللہ اور رسول ﷺ کا ہے۔ اس حصے کو رسول ﷺ اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے تھے اور جو بچ جاتا اسے راہ خدا میں خرچ کرتے تھے۔ دوسرا حصہ رسول اللہ ﷺ کے قریبی رشتہ داروں کا ہے۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے روایت ہے: یتیموں، مسکینوں اور مسافروں سے مراد ہم اہل بیت علیہ السلام کے یتیم، مسکین اور مسافر ہیں۔ اللہ کے بعد رسول ﷺ کا حصہ اور ذوالقربیٰ کا حصہ آل رسول ﷺ کا حق ہے۔ چنانچہ اسی بنیاد پر اللہ کے رسول ﷺ نے فدک حضرت فاطمہ علیہ السلام کی ملکیت میں دے دیا تھا۔ مال غنیمت لڑنے والوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جو مال بغیر لڑائی کے ہاتھ آئے اس میں درج بالا تقسیم ضروری ہے، وگرنہ اقتدار وغیرہ کے اثر و رسوخ کی وجہ سے یہ مال چند غیر محتاج لوگوں کے ہاتھوں چلا جائے گا۔ چنانچہ چشم تاریخ نے دیکھ لیا کہ عصر رسول ﷺ کے بعد با اثر لوگوں کے ترکے میں ملنے والے سونے کو کلہاڑیوں سے تقسیم کیا گیا۔ وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ خاص کر اس جگہ پر رسول ﷺ کے فرامین کی تعمیل پر تاکید سے عندیہ ملتا ہے کہ اس جگہ خلاف ورزی کا زیادہ امکان ہے۔ چنانچہ اس حکم کے لفظ میں عمومیت ہے اور رسول کے ہر حکم کو شامل کرتا ہے۔ تاہم اصل محل کلام فئ کا مال ہے۔ یہ مال چونکہ رسول کریم ﷺ کی ملکیت ہے، لہٰذا رسول ﷺ جو تمہیں دے دیں وہ لے لو اور جس مال سے روک دیں، اس سے رک جاؤ۔ لہٰذا یہ بات نہایت ہی واضح ہے کہ رسول ﷺ نے اپنی زندگی میں اس مال کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا ہے، اس آیت کی روشنی میں اس کے خلاف کرنا جائز نہیں ہے۔