اجتماعی مسائل میں مشورہ


اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اِذَا کَانُوۡا مَعَہٗ عَلٰۤی اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ یَذۡہَبُوۡا حَتّٰی یَسۡتَاۡذِنُوۡہُ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَسۡتَاۡذِنُوۡنَکَ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاۡذَنُوۡکَ لِبَعۡضِ شَاۡنِہِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمُ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۶۲﴾

۶۲۔ مومن تو بس وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی اجتماعی معاملے میں رسول اللہ کے ساتھ ہوں تو ان کی اجازت کے بغیر نہیں ہلتے، جو لوگ آپ سے اجازت مانگ رہے ہیں یہ یقینا وہی لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لہٰذا جب یہ لوگ اپنے کسی کام کے لیے آپ سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جسے آپ چاہیں اجازت دے دیں اور ایسے لوگوں کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بے شک اللہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

62۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ اجتماعی مسائل کو باہمی مشورے کے ساتھ طے فرماتے تھے اور وحی کا ذریعہ ہونے کے باوجود لوگوں کو اعتماد میں لیتے تھے اور جو لوگ رسول ﷺ پر قلبی ایمان رکھتے تھے وہ ان آداب کا احترام کرتے تھے اور رسول ﷺ کی مجلس کو چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے اور حقیقی مومن اجازت کے بغیر اس مجلس کو نہیں چھوڑتے تھے، جبکہ منافق دوسروں کی آڑ میں کھسک جاتے تھے۔