کفار کے اعتراضات


ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتۡ تَّاۡتِیۡہِمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ فَقَالُوۡۤا اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا ۫ فَکَفَرُوۡا وَ تَوَلَّوۡا وَّ اسۡتَغۡنَی اللّٰہُ ؕ وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ﴿۶﴾

۶۔ یہ اس لیے ہے کہ ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آتے تھے تو یہ کہتے تھے: کیا بشر ہماری ہدایت کرتے ہیں؟ لہٰذا انہوں نے کفر اختیار کیا اور منہ پھیر لیا، پھر اللہ بھی ان سے بے پرواہ ہو گیا اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

اَبَشَرٌ یَّہۡدُوۡنَنَا : کیا بشر ہماری ہدایت کریں گے؟ جب وہ ہماری طرح بشر ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ اس کے پاس کوئی وحی قسم کی چیز آئے، ہمارے پاس نہ آئے۔ قدیم سے لے کر آج تک لوگ ایک مافوق فطرت کی توقع رکھتے ہیں، خود انسان کو اللہ کی طرف سے سفارت کے عہدے پر فائز ہونے کا اہل نہیں سمجھتے۔