اکمال دین یعنی ولایت علی ؑ


حُرِّمَتۡ عَلَیۡکُمُ الۡمَیۡتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحۡمُ الۡخِنۡزِیۡرِ وَ مَاۤ اُہِلَّ لِغَیۡرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الۡمُنۡخَنِقَۃُ وَ الۡمَوۡقُوۡذَۃُ وَ الۡمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیۡحَۃُ وَ مَاۤ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیۡتُمۡ ۟ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنۡ تَسۡتَقۡسِمُوۡا بِالۡاَزۡلَامِ ؕ ذٰلِکُمۡ فِسۡقٌ ؕ اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ فَمَنِ اضۡطُرَّ فِیۡ مَخۡمَصَۃٍ غَیۡرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثۡمٍ ۙ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۳﴾

۳۔ تم پر حرام کیا گیا ہے مردار، خون، سور کا گوشت اور (وہ جانور) جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور وہ جو گلا گھٹ کر اور چوٹ کھا کر اور بلندی سے گر کر اور سینگ لگ کر مر گیا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم (مرنے سے پہلے)ذبح کر لو اور جسے تھان پر ذبح کیا گیا ہو اور جوئے کے تیروں کے ذریعے تمہارا تقسیم کرنا (بھی حرام ہے)، یہ سب فسق ہیں، آج کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہو چکے ہیں، پس تم ان (کافروں) سے نہیں مجھ سے ڈرو، آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا، پس جو شخص گناہ کی طرف مائل ہوئے بغیر بھوک کی وجہ سے (ان حرام چیزوں سے پرہیز نہ کرنے پر) مجبور ہو جائے تو اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔

3۔ کچھ حضرات نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ ان احکام کے بیان سے اسلامی احکام کا بیان مکمل ہوا اور اس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔ یہ مؤقف بھی اس لیے درست نہیں کیونکہ بخاری کی روایت کے مطابق آخری حکم آیہ ربا ہے اور بعض کے نزدیک آیہ کلالہ ہے اور دیگر بعض احکام اس آیت کے نزول کے بعد نازل ہوئے ہیں۔

حقیقت امر یہ ہے کہ کفار نے دین اسلام کی دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا لیکن انہیں ہمیشہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا، ان کی آخری امید یہ تھی یہ دین اس کے بانی کے جانے سے ختم ہو جائے گا اور یہ دعوت اس کے داعی کی موت سے مٹ جائے گی کیونکہ اس کی کوئی اولاد نرینہ بھی نہیں ہے اور بہت سے سلاطین اور شان و شوکت والے بادشاہان کے موت کے منہ میں جانے کے بعد ان کے نام و نشان مٹ گئے اور ان کے قبر میں جاتے ہی ان کی حکومتوں کو زوال آیا اور جب رسول اللہ ﷺ نے بحکم خدا اپنے بعد اس دین کے محافظ کا تعارف کرایا تو اس دین کے لیے بقا کی ضمانت فراہم ہو گئی اور بقول صاحب المیزان ”یہ دین مرحلہ وجود سے مرحلہ بقا میں داخل ہو گیا۔“ یہاں سے کافر مایوس ہو گئے کہ یہ رسالت ایک فرد کے ساتھ منحصر نہ رہی، اب یہ دعوت ایک شخص کے مرنے سے نہیں مرتی۔

امامیہ نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ... ۔ غدیر خم کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کے اعلان کے موقع پر نازل ہوئی۔ چنانچہ اصحاب رسول ﷺ میں سے اس کے راوی درج ذیل ہیں: 1۔ زید بن ارقم (طبری: الولایۃ) 2۔ ابوسعید خدری (حافظ ابن مردویہ تفسیر ابن کثیر 2: 14) 3۔ابوہریرہ (تفسیر ابن کثیر 2:14) 4۔ جابر بن عبد اللہ انصاری (نطنزی۔ الخصائص)