پانی مایہ حیات


وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ لَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّکُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷﴾

۷۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے اور (اے نبی) اگر آپ (لوگوں) سے یہ کہدیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے: یہ تو محض کھلا جادو ہے۔

7۔ اللہ کی سلطنت پانی پر تھی۔ پانی سے مراد یہی پانی ہو سکتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (انبیاء : 30) اور تمام زندہ چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے۔ ان دو آیتوں سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ کی سلطنت پانی پر تھی اور پانی مایۂ حیات اور تمام زندہ موجودات کا مادئہ مشترکہ ہے۔ لیکن ہم اس پانی کی تفصیل میں اس سے زیادہ نہیں جا سکتے کہ پانی سے مراد مائع مذاب ہے یا گیس یا سوڈیم یا ہوا ہے؟ ایسے غیبی موضوعات میں صریح نص کے بغیر اظہار خیال کرنا درست نہیں ہے۔

اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حسین کائنات کی غرضِ خلقت حسن عمل ہے۔ لہٰذا جو ہستی حسن عمل میں سب سے افضل ہے، وہی مقصد خلقت میں سب سے نمایاں ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے بعد پڑھیے: لولاک لما خلقت الافلاک ۔ (بحار الانوار 16:405)