برائت از مشرکین کا اعلان


وَ نَادٰۤی اَصۡحٰبُ الۡجَنَّۃِ اَصۡحٰبَ النَّارِ اَنۡ قَدۡ وَجَدۡنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَہَلۡ وَجَدۡتُّمۡ مَّا وَعَدَ رَبُّکُمۡ حَقًّا ؕ قَالُوۡا نَعَمۡ ۚ فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے رب نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔

44۔اہل جنت اور اہل جہنم کے اس مکالمے سے اہل جنت کو نعمتوں کی زیادہ قدر ہو گی اور اہل جہنم کی حسرت و ندامت میں اضافہ ہو گا۔ ایسے میں اہل جنت میں سے ایک مؤذن اذان برائت دے گا جس کا مضمون یہ ہو گا: اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ ۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے کوفہ میں ایک خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: انا المؤذن فی الدنیا والآخرۃ، قال اللّٰہ عزوجل: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ وانا ذلک المؤذن و قال:وَاَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ انا ذلک المؤذن ۔ میں دینا و آخرت دونوں میں مؤذن ہوں۔ اللہ عزوجل نے فرمایا: فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌۢ بَیۡنَہُمۡ اَنۡ لَّعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیۡنَ میں ہی وہ مؤذن ہوں نیز فرمایا:َ اَذَانٌ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖٓ یہاں بھی میں ہی وہ مؤذن ہوں“۔ (معانی الاخبار ص 58)

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مشرکین سے برائت کا اعلان بحکم خدا و رسول ﷺ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا جو دنیا میں شرک و ایمان کے درمیان ایک فیصلہ کن اذان تھی۔ وہ رسول ﷺ کی فتح، نفئ شرک اور توحید کی اذان تھی۔ آخرت میں ہونے والی یہ اذان اسی اذان کا تسلسل ہے۔ وہی حق والوں کی اذان اور اہل جنت و اہل جہنم میں امتیاز کی اذان۔ اب ظالموں سے برائت کی نہیں بلکہ ظالموں پر لعنت کی اذان، تاریخ اذان کی سب سے اہم ترین اذان اور سب سے آخری اذان۔

البیان کے مطابق ابو القاسم حسکانی نے محمد حنفیہ سے اور انہوں نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: انا ذلک المؤذن ۔ وہ مؤذن میں ہی ہوں۔

وَ اَذَانٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖۤ اِلَی النَّاسِ یَوۡمَ الۡحَجِّ الۡاَکۡبَرِ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیۡٓءٌ مِّنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ۬ۙ وَ رَسُوۡلُہٗ ؕ فَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّکُمۡ غَیۡرُ مُعۡجِزِی اللّٰہِ ؕ وَ بَشِّرِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ۙ﴿۳﴾

۳۔اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حج اکبر کے دن لوگوں کے لیے اعلان ہے کہ اللہ اور اس کا رسول بھی مشرکین سے بیزار ہے اور پس اگر تم توبہ کر لو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اور اگر منہ پھیر لو گے تو جان رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے اور کافروں کو دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔

3۔ مشرکین مکہ نے عہد شکنی میں پہل کی، تاہم رحمت و ہدایت کا تقاضا یہی ہے کہ ان کو پھر بھی چار مہینے کی مہلت دی جائے۔

سنہ8 ہجری میں مکہ فتح ہوا۔ اس سال مسلمانوں نے پہلا حج کیا۔ سنہ 9 ہجری میں سورﮤ برائت کے ساتھ حضرت ابوبکر کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا گیا۔ لیکن بعد میں حضرت رسول اکرم ﷺ پر جبرئیل نازل ہوئے اور اللہ کا یہ پیغام پہنچایا : الا یؤدی عنک الا انت او رجل منک اعلان برائت کی اس ذمہ داری کو یا تو آپ خود بنفس نفیس انجام دیں یا ایسا شخص جو آپ سے ہو۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان برائت کی ذمے داری حضرت علی علیہ السلام کو دے دی۔ (الارشاد: 65 ) اس روایت کو کبار اصحاب نے نقل کیا ہے۔ واضح رہے کہ تبلیغ کا پہلا مرحلہ یعنی اللہ کا حکم لوگوں تک پہنچانا رسول کریم ﷺ کی ذمہ داری اور فرض منصبی ہے۔ تبلیغ کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ سننے والوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ دوسروں تک پہنچائیں۔ برائت از مشرکین کا اعلان پہلے مرحلے میں تھا، یعنی خود رسول اللہ ﷺ کا فرض منصبی تھا کہ لوگوں میں اعلان کریں۔ اگر کسی وجہ سے یہ نہ ہو سکتا تو یہ ذمہ داری وہ انجام دیتا جو رسول اللہ ﷺ کے بعد کے درجے کا ہو۔ یعنی اس اعلان کو یا تو اس مشن کی پہلی شخصیت انجام دے یا دوسری شخصیت۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام اس مشن کی دوسری شخصیت ثابت ہوئے۔