بِسْمِ اللّٰہ، جزء سورہ


بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾

۱۔ بنام خدائے رحمن رحیم

اس سورہ کو فاتحۃ الکتاب (کتاب کا افتتاحیہ) کہا جاتا ہے اور یہ بات مسلّم ہے کہ سورتوں کے نام توقیفی ہیں۔ یعنی ان کے نام خود رسول کریم ﷺ نے بحکم خدا متعین فرمائے ہیں۔ پس معلوم ہوا کہ قرآن عہد رسالت میں ہی مدون ہو چکا تھا جس کا افتتاحیہ ”سورہ فاتحہ“ ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے کہ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ سورﮤ برائت کے علاوہ قرآن کے ہر سورے کا جزو ہے۔ عہد رسالت سے مسلمانوں کی یہ سیرت رہی ہے کہ وہ سورﮤ برائت کے علاوہ ہر سورے کی ابتدا میں بِسۡمِ اللّٰہِ کی تلاوت کرتے تھے۔ تمام اصحاب و تابعین کے مصاحف میں بھی بِسۡمِ اللّٰہِ درج تھی، جب کہ تابعین، قرآن میں نقطے درج کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ کا بِسۡمِ اللّٰہِ میں یکجا ذکر کرنے سے اللہ کے مقام رحمت کی تعبیر میں جامعیت آ جاتی ہے کہ الرَّحۡمٰنِ سے رحمت کی عمومیت اور وسعت: وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ (7: 156) ”میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے“ اور الرَّحِیۡمِ سے رحم کا لازمۂ ذات ہونا مراد ہے: کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ (6: 54) ”تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے“۔ لہٰذا اس تعبیر میں عموم رحمت اور لزوم رحمت دونوں شامل ہیں۔