قرآن میں وضو کا حکم


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ جُنُبًا فَاطَّہَّرُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ مِّنۡہُ ؕ مَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیَجۡعَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡ حَرَجٍ وَّ لٰکِنۡ یُّرِیۡدُ لِیُطَہِّرَکُمۡ وَ لِیُتِمَّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ﴿۶﴾

۶۔ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو، اگر تم حالت جنابت میں ہو تو پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آیا ہو یا تم نے عورتوں کو ہاتھ لگایا (ہمبستری کی) ہو پھر تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی سے تیمم کرو پھر اس سے تم اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کرو، اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ وہ تمہیں پاک اور تم پر اپنی نعمت مکمل کرنا چاہتا ہے شاید تم شکر کرو۔

6۔ ”ہاتھ“ کہنے سے معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں تک دھونا ہے، کیونکہ کلائی تک کو بھی ہاتھ کہا جاتا ہے۔ اس لیے حد کو بیان کیا کہ کہنیوں تک دھونا ہے، نہ زیادہ نہ کم۔ لہٰذا یہ مغسول کی حد بندی ہے، غسل (دھونے) کی نہیں۔ یہاں دھونے کی ابتداء اور انتہا کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا تعین سنت سے ہوتا ہے۔ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ یعنی پورے سر کا نہیں ایک حصے کا مسح کرو۔ روایت ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: ایک حصہ کہاں سے سمجھا جاتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا : لمکان الباء یعنی باء سے جو رُءُوۡسِکُمۡ میں ہے۔ آیت کا ذمہ دار ترجمہ یہ بنتا ہے:مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کا بھی ٹخنوں تک۔ اس جملے کی دو قرائتیں ہیں: اَرۡجُلَکُمۡ میں لام پر زبر اور زیر کے ساتھ۔ دونوں قرائتوں کی بنا پر رُءُوۡسِکُمۡ کے محل یا لفظ پر عطف ہے۔ لہٰذا دونوں قرائتوں کی بنا پر مسح رجلین ثابت ہے۔ چنانچہ صاحب تفسیر المنار کہتے ہیں: و الظاھر انہ عطف علی الرأس ای و امسحوا بارجلکم الی الکعبین ۔ اسی لیے ابن حزم اور طحاوی کو یہ مؤقف اختیار کرنا پڑا کہ مسح کا حکم منسوخ ہوا ہے۔ (المنار 6: 228)

غیر امامیہ کے ہاں مسح علی الخفین ایک مسلمہ امر ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ اصحاب نے کہا: ہم نے خود رسول خدا ﷺ کو مسح علی الخفین کرتے دیکھا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: نزول سورہ مائدہ سے پہلے دیکھا یا بعد میں؟ انہوں نے کہا: یہ ہم نہیں جانتے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : ولکنی ادری ”لیکن میں جانتا ہوں کہ رسول خدا ﷺ نے موزوں پر مسح کرنا سورﮤ مائدہ کے نزول کے بعد ترک کر دیا تھا۔ “