غنیمت اور خمس


وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔

41۔ مادہ غ ن م، اہل لغت کے نزدیک الفوز بالشیء بلا مشقۃ ۔ کسی چیز کا بغیر مشقت کے حاصل ہونا ہے۔ اسلامی جنگوں کے بعد یہ لفظ جنگی غنیمت میں زیادہ استعمال ہونے لگا۔ لہٰذا جب یہ لفظ قرآن و سنت میں استعمال ہو تو ہم اسے قدیم لغوی معنوں میں لیں گے اور اگر اسلامی جنگوں کے بعد اہل اسلام نے اس لفظ کو استعمال کیا ہو تو ہم جنگی غنیمت مراد لیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ غنیمت کے علاوہ کسی اور چیز پر خمس نہیں ہے، کیونکہ غنیمت کے علاوہ معدنیات، خزانہ اور آبی دولت پر بالا تفاق خمس ہے۔

خمس کے سلسلے میں ان تحریروں کا مطالعہ ضروری ہے جن میں رسول اسلام ﷺ نے مختلف علاقوں سے آنے والے وفود کو اور مختلف قبائل کو دیے گئے امان ناموں میں جہاں اطاعت رسول ﷺ، برائت از مشرکین، نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے وہاں ادائے خمس کا بھی حکم صادر فرمایا ہے۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خمس کے بارے میں سوال کے جواب میں فرمایا: فی کل ما افاد الناس من قلیل او کثیر ۔ تمام آمدنی پر خمس ہے خواہ کم ہو یا زیادہ۔ دوسری روایت میں سوال ہوا: کیا ہر قسم کی کمائی پر خمس ہے؟ معصوم علیہ السلام نے فرمایا: علیہ الخمس بعد مؤنۃ عیالہ و بعد خراج السلطان ۔ ہاں! اپنے عیال کا خرچ اور حکومتی ٹیکس ادا کرنے کے بعد اس پر خمس ہے۔ (وسائل الشیعۃ)