شکست کے اسباب


اَوَ لَمَّاۤ اَصَابَتۡکُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ قَدۡ اَصَبۡتُمۡ مِّثۡلَیۡہَا ۙ قُلۡتُمۡ اَنّٰی ہٰذَا ؕ قُلۡ ہُوَ مِنۡ عِنۡدِ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (مسلمانو! ) جب تم پر ایک مصیبت پڑی تو تم کہنے لگے: یہ کہاں سے آئی؟ جبکہ اس سے دگنی مصیبت تم (فریق مخالف پر)ڈال چکے ہو، کہدیجئے: یہ خود تمہاری اپنی لائی ہوئی مصیبت ہے، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

165۔ حق پر ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ علل و اسباب سے بالاتر ہیں۔ یہ شکست خود تمہاری خیانت اور قیادت کے احکام سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم خیانت کرو اور اس کا نتیجہ فتح و نصرت کی صورت میں سامنے آئے۔ نیز تم قیادت کی نافرمانی کرو اور اس کا نتیجہ عزت و جلالت ہو۔ اس کے باوجود اس صدمے کی تخفیف کی خاطر جنگ بدر کے ساتھ موازنہ فرمایا کہ تم نے وہاں ان کے ستر مارے اور ستر اسیر بنائے اور آج تمہارے صرف ستر افراد شہید ہوئے۔

وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ خَرَجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ بَطَرًا وَّ رِئَآءَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطٌ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جو اپنے گھروں سے اتراتے ہوئے اور لوگوں کو دکھانے کے لیے نکلے ہیں اور اللہ کا راستہ روکتے ہیں اور اللہ ان کے اعمال پر خوب احاطہ رکھتا ہے۔

47۔ کفار قریش جس حال میں نکلے تھے اس کی طرف اشارہ ہے۔ وہ رقص و سرود، مے نوشی کی محفلیں جماتے ہوئے غرور و تکبر کے ساتھ نکلے تھے اور ذلت آمیز شکست سے دو چار ہو کر انہیں واپس جانا پڑا۔ جنگی تاریخ میں اس بات پر بے شمار شواہد موجود ہیں کہ جو لشکر خود بینی و تکبر اور غرور کا شکار رہا، وہ شکست سے دو چار ہوا ہے۔ بدر کی فتح کے بعد مسلمانوں کو تکبر و غرور سے بچانے کے لیے اس تنبیہ کی ضرورت پیش آئی۔