اسلام کا تصور مال


کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ اِنۡ تَرَکَ خَیۡرَۨا ۚۖ الۡوَصِیَّۃُ لِلۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ حَقًّا عَلَی الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۱۸۰﴾ؕ

۱۸۰۔ تمہارے لیے یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ کچھ مال چھوڑے جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ والدین اور قریبی رشتہ داروں کے لیے مناسب طور پر وصیت کرے، متقی لوگوں پر یہ ایک حق ہے۔

180۔ تَرَکَ خَیۡرَۨا سے مراد مال ہے۔ قرآن مجید میں مال کو یہاں خیر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ مال اگرچہ خود مقصد تو نہیں، لیکن اگرکسی نیک مقصد کا ذریعہ بنتا ہو تو اس میں خیر ہی خیر ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ علیہ السلام نے خیر سے مال کثیر مراد لیا ہے۔ چنانچہ ایک ایسے آدمی کو جس کے پاس صرف سات سو درہم تھے آپ علیہ السلام نے وصیت کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا: قَال سُبْحَانَہٗ اِنْ تَرَكَ خَيْرَۨا وَ لَیْسَ لَکَ کَثِیْرِ مَالٍ ۔ (فقہ القرآن 2: 301) اللہ سبحانہ نے فرمایا ہے کہ خیر چھوڑ جائے اور تیرے پاس کثیر مال نہیں ہے۔

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ﴿۱۴﴾

۱۴۔ لوگوں کے لیے خواہشات نفس کی رغبت مثلاً عورتیں، بیٹے، سونے اور چاندی کے ڈھیر لگے خزانے، عمدہ گھوڑے، مویشی اور کھیتی زیب و زینت بنا دی گئی ہیں، یہ سب دنیاوی زندگی کے سامان ہیں اور اچھا انجام تو اللہ ہی کے پاس ہے۔

14۔ اسلام کے نزدیک مال اگر خود مقصد ہے تو برا ہے اور اگر کسی نیک مقصد کا ذریعہ ہو تو اسے قرآن نے خیر کہا ہے۔ بالکل کشتی کے لیے پانی کی طرح، یہ پانی اگر کشتی کے نیچے رہے تو پار ہونے کے لیے بہترین ذریعہ ہے اور یہی پانی اگر کشتی کے اندر آ جائے تو اسی پانی میں ہلاکت ہے۔

وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۶﴾

۶۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کا سرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھا سکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

5۔ 6۔ مال کے بارے میں اسلام کا تصور اس طرح ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہے اور پوری امت کو اللہ کی طرف سے اس مال پر نظارت کا حق حاصل ہے۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ (57: 7) یعنی اس کو انفرادی تصرف میں دینے کے لیے فرد کی صلاحیت دیکھیں گے۔ اگر فرد میں عقل و رشد کے اعتبار سے معقول تصرف کرنے کی صلاحیت نہیں تو اس مال کی پوری امت امین ہے۔ ایسے فرد کے تصرف میں مال نہیں دیا جائے گا۔