اسلامی قوانین کی عدم پیچیدگی


لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا﴿۷﴾

۷۔اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے ۔

7۔ اس آیت میں درج ذیل قوانین موجود ہیں:

1۔ والدین اور قرابتداروں میں سے کوئی بھی ارث سے محروم نہ رہے گا، جیسا کہ دور جاہلیت میں یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ بچے چونکہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور دفاع میں بھی حصہ نہیں لے سکتے اس لیے چھوٹے بچوں کو ارث نہیں دیا جاتا۔ مگر اسلام بچوں کی دفاعی اعتبار سے قیمت نہیں لگاتا بلکہ ان کے انسانی مقام کے اعتبار سے انہیں وقعت دیتا ہے۔ 2۔ میراث صرف مردوں کا حق نہیں بلکہ میراث میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مرد کے ساتھ ایک ہی طبقے میں ہو تو وہ ارث سے محروم نہیں رہتی ہے۔ مثلاً بیٹے کے ساتھ بیٹی کو بھائی کے ساتھ بہن کو چچا کے ساتھ پھوپھی کو حسب مراتب ارث ملے گا۔ 3۔ میراث کتنی ہی کم ہو، تقسیم ہونی چاہیے۔ مال متروکہ تھوڑا ہونے کی وجہ سے جواز نہیں بنتا کہ اسے تقسیم نہ کیا جائے۔ میراث کے یہ قوانین عرب جاہلیت کے اعتبار سے بالکل غیرمانوس تھے اور قرابتداروں میں سے کئی ایک کو میراث سے محروم رکھنا ان کے ہاں ایک عام سی بات تھی۔ اسلام نے یکسر ان غیر انسانی قوانین کو بدل دیا۔ 4۔ اس آیہ شریفہ کی عمومیت میں رسالتمآب ﷺ کا ترکہ بھی شامل ہے۔