ایمان بالغیب مذہب کی بنیاد


الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾

۳۔ جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں نیز جو کچھ ہم نے انہیں عطا کیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

3۔ غیب، شہود اور محسوس کا مقابل ہے۔ مذہب کے بنیادی عقائد ایمان بالغیب پر مبنی ہیں۔ جو لوگ ماورائے محسوسات کو دائرئہ تجربہ سے خارج ہونے کی وجہ سے مسترد کرتے ہیں، اولاً: ان کی خود یہی بات غیر تجرباتی ہے، ثانیاً: تجربات سے کلی نتائج اخذ کرنے کے لیے غیر تجرباتی اصول تسلیم کرنا پڑتے ہیں، ورنہ تجربہ صرف انہی افراد کے لیے دلیل بنتا ہے جو اس مرحلے سے گزرے ہوں۔ ثالثاً: اگر صرف محسوسات و تجربات ہی پر انحصار کرنا ہے تو انہیں چاہیے کہ ماورائے محسوسات پر نفی و اثبات میں کوئی نظریہ قائم نہ کریں۔ حالانکہ یہ لوگ جب ماورائے حس کی نفی کرتے ہیں تو حس و تجربے کی حدود سے نکل کر ماورائے حس میں قدم رکھتے ہوئے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں۔ اب خواہ نفی کا نظریہ سہی، لیکن یہ ان کی طرف سے ماورائے حس کا عملی اعتراف ہے۔ ایمان بالغیب کے بعد نماز دین کا ستون ہے جو لا تترک بحال ”کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑی جا سکتی“ اور اقامۂ نماز اور قرآنی معاشرے کے قیام کے لیے انفاق کو نماز کے بعد کا درجہ حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں بندگی، ذکر خدا اور فیاضی پر مشتمل ہے۔ یعنی مومن نمازی معاشرے کا فعال اور فیاض رکن ہوتا ہے۔