سابقین اولین


وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے یہی عظیم کامیابی ہے۔

100۔ مہاجرین سابقین اولین وہ لوگ ہیں جنہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی یا جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کیا اور ہجرت کی۔ انصار میں سابقین اولین وہ سات افراد ہیں جنہوں نے بعثت کے گیارہویں سال منیٰ کی بیعت عقبہ میں شرکت کی۔ ان کے بعد وہ ستر افراد ہیں جنہوں نے بعثت کے بارہویں سال کی بیعت میں شرکت کی۔ ان کے بعد ان لوگوں کا رتبہ آتا ہے جنہوں نے رسول اکرم ﷺ کے فرستادہ حضرت مصعب بن عمیر کے ہاتھوں اسلام قبول کیا۔ ان کے بعد ان لوگوں کا رتبہ آتا ہے جنہوں نے جنگ بدر سے پہلے اسلام قبول کیا۔ کیونکہ سنہ2 ہجری میں جنگ بدر کے موقع پر منافقت شروع ہو گئی تھی۔

تابعین ان لوگوں کو کہتے ہیں جو نیک کرداری میں مہاجرین و انصار کی اتباع کریں لیکن مطلق نہیں، بِـاِحۡسَانٍ کی قید کے ساتھ۔ دریا بادی صاحب اس جگہ لکھتے ہیں: بہت قابل غور ہے۔ وہ مہاجر ہوں یا انصار یا صحابہ کرام کی کوئی قسم ہو، بہرحال یہ حضرات معصوم نہ تھے۔ عصمت صرف خاصۂ نبوت ہے۔ اس لیے حکم ان حضرات کی اتباع مطلق کا نہیں، بلکہ نیک کرداری میں ان کی اتباع کی جائے۔

تابعین میں قیامت تک کے تمام طبقات شامل ہیں۔ یہاں اصطلاحی تابعین کو مراد لینا درست نہیں ہے۔ تابعین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ سابقین اولین کے کردار کو مشعل راہ بنانے کے لیے نیک کرداری اور اس کے عدم میں تمیز کریں، اس کے بغیر پیروی نہیں ہو سکتی۔ اس تمیز کرنے کو طعن کہنا درست نہیں ہے اور تمیز سے آگے بڑھنا (طعن) بھی درست نہیں ہے۔