الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اس نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کے اوپر بنایا، تو رحمن کی تخلیق میں کوئی بدنظمی نہیں دیکھے گا، ذرا پھر پلٹ کر دیکھو کیا تم کوئی خلل پاتے ہو؟

3۔ 4 یعنی رحمن کی تخلیق میں تفاوت نہیں ہے۔ بدنظمی نہیں ہے۔ سورج کی دھوپ سے سمندر سے بخار اٹھتا ہے، بادل وجود میں آتے ہیں، ہوا بادل کو چلاتی ہے، خشک علاقوں میں بارش برستی ہے۔ دانے اور میوے اگتے ہیں، دستر خوانوں کی زینت بنتے ہیں، غذا بن جاتے ہیں، پھر خون بن جاتے ہیں۔ یہ خون تحلیل شدہ جسم کی تلافی کر کے اس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر تحلیل ہو کر کاربن کی شکل میں کسی درخت کا حصہ بن جاتے ہیں وہ درخت پھل دیتا ہے۔ یہ دورہ پھر شروع ہوتا ہے۔ دیکھو: ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ۔ کیا اس گردش میں کوئی خلل ہے؟

رحمٰن کی تخلیق کے بارے میں اس آیت اور بعد کی آیت میں بار بار اللہ تعالیٰ کی صناعی کا مطالعہ کرنے کا حکم ہے کہ تلاش کرو، اللہ تعالیٰ کے تخلیقی نظام میں کہیں خلل نظر آتا ہے؟ اپنی تحقیق کو جاری رکھو۔ کَرَّتَیۡنِ بار بار تحقیق کرو۔ كَرَّتَيْنِ لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ کی طرح ہے۔ صرف دو مرتبہ کے لیے نہیں، بار بار کرنے کے لیے ہے۔ آخرکار تحقیق کنندہ کائنات میں کوئی خلل نہیں پا سکے گا۔

خَاسِئًا : ناکام ہو جانا۔ حَسِیۡرٌ تھک جانا۔ یعنی نگاہیں اس کائنات میں خلل تلاش کرنے میں ناکام رہ جائیں گی۔