الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾
۲۔ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں سے عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ بڑا غالب آنے والا، بخشنے والا ہے۔
2۔ اس آیت سے بظاہر یہ بات سامنے آتی ہے کہ حسن عمل ہی غرض تخلیق کائنات ہے، لہٰذا جو ہستی حسن عمل کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہو، وہی غرض تخلیق میں بھی اعلیٰ ترین مقام کی حامل ہو گی۔ اگر یہ نکتہ آپ کی سمجھ میں آ جائے تو آپ یہ فرمان بھی بآسانی سمجھ لیں گے: لولاک لما خلقت الافلاک ۔ (مناقب 1: 216) یعنی (اے محمد ﷺ! اے مجسمۂ احسن عمل) اگر تو نہ ہوتا تو میں اس کائنات کو خلق نہ کرتا۔