مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۱﴾

۱۱۔ مصائب میں سے کوئی مصیبت اللہ کے اذن کے بغیر نازل نہیں ہوتی اور جو اللہ پر ایمان لاتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر شے کا خوب علم رکھتا ہے۔

11۔ اذن سے مراد اذن تکوینی ہے۔ یعنی اللہ سبب و علت کی تاثیر میں رکاوٹ نہیں ڈالتا۔ لہٰذا ممکن ہے کہ گاہے اذن تشریعی نہ ہو، لیکن اذن تکوینی موجود ہو۔ مثلاً ظالم کی چھری مظلوم کی گردن کاٹ رہی ہو تو چھری میں کاٹنے کی صلاحیت اللہ کی ودیعت کردہ تاثیر سے ہے، یہ اذن تکوینی ہے، جبکہ ایسا کرنے کا اذن تشریعی نہیں ہے۔

وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ : ایمان باللہ کی وجہ سے انسان کا زنگ زدہ قلب شفاف ہو جاتا ہے اور تاریکی چھٹ جاتی ہے، پھر راستے کھل جاتے ہیں۔ یہی خاصیت تقویٰ کی بھی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے پر فرقان یعنی امتیاز کی صلاحیت مل جاتی ہے۔