وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿٪۱۰﴾ ۞ٙ

۱۰۔ اور جو ان کے بعد آئے ہیں، کہتے ہیں: ہمارے رب! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمان لانے والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ، ہمارے رب! تو یقینا بڑا مہربان، رحم کرنے والا ہے۔

10۔ وَ الَّذِیۡنَ مبتدا اور یَقُوۡلُوۡنَ خبر ہے۔ ایک مستقل جملہ۔ یہ آیت اور سابقہ آیت دونوں الۡمُہٰجِرِیۡنَ پر عطف نہیں ہیں، جیسا کہ اکثر نے کہا ہے۔ میں نے بھی سابقہ ترجموں میں یہی اختیار کیا تھا۔ سعودی عرب میں چھپنے والے قرآن کے حاشیے پر درج ہے: امام مالک نے اس آیت سے استدلال کیا ہے: رافضی کو، جو صحابہ کرام پر سب و شتم کرتے ہیں، مال فئ میں سے حصہ نہیں ملے گا۔۔۔ جواب یہ ہے کہ سب و شتم کسی مذہب کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اہل بیت علیہ السلام کے ماننے والے مہاجرین و انصار کو سابقین فی الایمان سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ البتہ یہ بحث ضرور ہے کہ بعض افراد کو قرآن نے اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ کہ کر فاسق کہا ہے تو ان کو وہی نام دیا جاتا ہے جو آپ کو سَبَّ لگتا ہے۔ البتہ یہاں ان لوگوں کا مسئلہ واضح ہے جو اہل ایمان سے عداوت رکھتے ہیں اور اپنے علاوہ سب اہل ایمان کو مشرک کہتے ہیں: وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا (حشر: 10) ”اور ہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لیے کوئی عداوت نہ رکھ“ کی زد میں آتے ہیں۔