ہُوَ الَّذِیۡۤ اَخۡرَجَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ مِنۡ دِیَارِہِمۡ لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ ؕؔ مَا ظَنَنۡتُمۡ اَنۡ یَّخۡرُجُوۡا وَ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ مَّانِعَتُہُمۡ حُصُوۡنُہُمۡ مِّنَ اللّٰہِ فَاَتٰىہُمُ اللّٰہُ مِنۡ حَیۡثُ لَمۡ یَحۡتَسِبُوۡا ٭ وَ قَذَفَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الرُّعۡبَ یُخۡرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمۡ وَ اَیۡدِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ٭ فَاعۡتَبِرُوۡا یٰۤاُولِی الۡاَبۡصَارِ﴿۲﴾

۲۔ وہ وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافر ہونے والوں کو پہلی ہی بیدخلی مہم میں ان کے گھروں سے نکال دیا، تمہارا گمان نہیں تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ یہ سمجھے ہوئے تھے کہ ان کے قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے مگر اللہ (کا عذاب) ان پر ایسی جانب سے آیا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا، وہ اپنے گھروں کو اپنے ہاتھوں اور مومنین کے ہاتھوں سے اجاڑ رہے تھے، پس اے بصیرت رکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔

مَا ظَنَنۡتُمۡ، وَ ظَنُّوۡۤا یعنی مسلمانوں کا یہ خیال تھا کہ یہود اپنے مضبوط قلعوں سے نہیں نکلیں گے، چونکہ قلعہ کا فتح کرنا بہت مشکل ہے اور خود یہودیوں کو بھی اپنے قلعوں پر ناز تھا کہ ہمارے قلعہ کو کون فتح کر سکتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ فَاَتٰىہُمُ اللّٰہُ مِنۡ حَیۡثُ لَمۡ یَحۡتَسِبُوۡا اس قلعے پر ایسی جانب سے حملہ ہوا جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ یُخۡرِبُوۡنَ بُیُوۡتَہُمۡ بِاَیۡدِیۡہِمۡ جاتے ہوئے اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے خراب کر رہے تھے۔

لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ : یعنی یہ جزیرۃ العرب سے یہودیوں کا پہلا اخراج ہے۔ اگر الحشر کے معنی ایک مجتمع افراد کو نکال دینا کے ہیں تو لِاَوَّلِ الۡحَشۡرِ کا ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”پہلے ہی لشکر سازی“۔