لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِۣ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔ تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو، اللہ کسی خودپسند، فخر جتانے والے کو پسند نہیں کرتا

23۔ لہٰذا جو کچھ رونما ہونے والا ہے وہ اس عام قانون کے تحت ملنے والی خود مختاری کے مطابق ہے۔ اس نکتہ کو سمجھنے کے بعد نہ نقصان کی صورت میں دل شکنی ہونی چاہیے اور نہ کچھ منافع ملنے پر آپے سے باہر ہو جانا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے الزھد کلمۃ بین کلمتین من القرآن۔ قال اللہ سبحانہ لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ فمن لم یاس علی الماضی و لم یفرح بالآتی فقد اخذ الزہد بطرفیہ ۔ (نہج البلاغۃ۔ بحار الانوار67: 320) پورا زہد قرآن کے دو کلموں کے درمیان ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”جو چیز ہاتھ سے چلی جائے،، اس پر رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز اللہ تم کو دے دے اس پر اترایا نہ کرے۔“ جو شخص گزشتہ پر رنجیدہ نہ ہو اور آنے والی چیز پر اترایا نہ کرے، اس نے زہد کو دونوں طرف سے پکڑ لیا۔