فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ ؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ۬ۚ۟ۛ ذٰؔلِکَ ؕۛ وَ لَوۡ یَشَآءُ اللّٰہُ لَانۡتَصَرَ مِنۡہُمۡ وَ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَا۠ بَعۡضَکُمۡ بِبَعۡضٍ ؕ وَ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ فَلَنۡ یُّضِلَّ اَعۡمَالَہُمۡ﴿۴﴾

۴۔ پس جب کفار سے تمہارا سامنا ہو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کر چکو تو (بچنے والوں کو) مضبوطی سے قید کر لو، اس کے بعد احسان رکھ کر یا فدیہ لے کر (چھوڑ دو) تاوقتیکہ لڑائی تھم جائے، حکم یہی ہے اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے انتقام لیتا لیکن (اللہ کو یہ منظور ہے کہ) تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سے لے اور جو لوگ راہ خدا میں شہید کیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز حبط نہیں کرے گا۔

4۔ جو راہ خدا میں شہید ہو جاتے ہیں، ان کے اعمال کے اثرات تادیر جاری رہیں گے اور حبط کی کوئی نوبت نہیں آئے گی۔

جنگی حکمت عملی کے تحت لڑائی میں فتح و شکست کا فیصلہ ہونے سے پہلے قیدی بنانے کی ممانعت ہے، ورنہ عین لڑائی کے دوران قیدی بنانا شروع کیا جائے تو اولاً لشکر کی طاقت کا ایک حصہ قیدی بنانے پر صرف ہو جائے گا، اس طرح طاقت کا توازن بگڑ سکتا ہے، ثانیاً چونکہ قیدی بننے کا خطرہ قتل ہونے سے کمتر ہے، اس لیے دشمن کو اس سے نفسیاتی طور پر فائدہ مل سکتا ہے۔ ثالثاً یہ بات جنگی عمل کے بھی منافی ہے کہ دشمن قتل کرے اور ادھر قتل کی جگہ دشمن کو قید کیا جائے۔ اس طرح اسلام کی جنگی حکمت عملی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ لڑائی کے دوران قیدی نہ بناؤ اور لڑائی کے بعد قیدی کو قتل نہ کرو۔ یہ ہدایت اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ فدیہ حاصل کرنے یا غلام حاصل کرنے کے لالچ میں اصل مقصود کو فراموش نہ کریں۔ واضح رہے اسلام کے نزدیک انسان بذات خود آزاد ہے۔ غلامی کی صرف ایک صورت ہے۔ وہ یہ کہ کفر و اسلام کی جنگ میں کافر میدان جنگ میں قیدی بن جائے تو امام کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے بلا معاوضہ آزاد کر دے یا فدیہ لے کر آزاد کر دے یا اسے غلام بنائے۔ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ فرمائیں۔