سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ اَنَّہُ الۡحَقُّ ؕ اَوَ لَمۡ یَکۡفِ بِرَبِّکَ اَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ﴿۵۳﴾

۵۳۔ ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہو جائے کہ یقینا وہی (اللہ) حق ہے، کیا آپ کے رب کا یہ وصف کافی نہیں ہے کہ وہ ہر چیز پر خوب شاہد ہے؟

53۔ آفاق سے فتوحات اور انفس سے خود مشرکین کی سرنگونی کو مراد لیا جاتا ہے۔ یہ سوال کہ فتوحات حق کی دلیل نہیں ہے، باطل طاقتیں بھی فتوحات کر لیتی ہیں، درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں صرف فتوحات دلیل نہیں ہیں، بلکہ ان فتوحات کا قرآن کی پیشگوئی کے مطابق حاصل ہونا دلیل ہے۔ قرآن ان فتوحات کی مکی زندگی میں اس وقت خبر دے رہا ہے، جب وہاں ان فتوحات کے کوئی امکانات نظر نہیں آ رہے تھے۔

دوسری تفسیر یہ ہے: آفاق سے کائنات میں موجود نشانیاں اور انفس سے خود انسان کے وجود کے اندر موجود آیات کو مراد لیا گیا ہے۔ چنانچہ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ آفاق و انفس میں پنہاں راز ہائے قدرت سے روز بروز پردے اٹھتے جا رہے ہیں اور یہ سلسلہ حق کے نکل کر سامنے آنے تک جاری رہے گا۔

پہلی تفسیر کے مطابق اَنَّہُ الۡحَقُّ سے قرآن مراد ہے۔ دوسری تفسیر کے مطابق اَنَّہُ قرآن بھی ہو سکتا ہے اور اللہ بھی۔