قَالُوۡا یٰوَیۡلَنَا مَنۡۢ بَعَثَنَا مِنۡ مَّرۡقَدِنَا ٜۘؐ ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحۡمٰنُ وَ صَدَقَ الۡمُرۡسَلُوۡنَ﴿۵۲﴾

۵۲۔ کہیں گے: ہائے ہماری تباہی! ہماری خوابگاہوں سے ہمیں کس نے اٹھایا؟ یہ وہی بات ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا اور پیغمبروں نے سچ کہا تھا۔

52۔ ممکن ہے قیامت کی ہولناک صورتحال کے مقابلے میں قبر کو خوابگاہ سے تعبیر کیا ہو، کیونکہ کافر عالم برزخ میں بھی عذاب میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک نظریے کے مطابق حیات برزخی صرف قبر میں نکیرین کے سوال تک محدود ہے، پھر قیامت تک نیند کی حالت طاری رہے گی۔ چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے: وَمَا بَیْنَ الْمَوْتِ وَ الْبَعْثِ اِلَّا کَنَوْمَۃٍ نِمْتَھَا ثُمَّ اسْتَیْقَظْتَ مِنْھَا ۔ (اصول الکافی 2: 134) یعنی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت ایک نیند کی مانند ہے کہ جس کے بعد تو بیدار ہو جائے۔ تحقیق کے مطابق شہداء اور اللہ کے نہایت مقرب بندوں کے لیے عالم برزخ میں زندگی اور نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح جو بڑے سرکش اور مجرم لوگ ہیں، ان کے لیے عالم برزخ میں زندگی اور عذاب ہے۔ باقی لوگ بعد از موت قبر میں صرف نکیرین کے سوال کے لیے زندہ کیے جائیں گے۔ اس کے بعد قیامت تک ان کے لیے زندگی نہ ہو گی۔