اَفَمَنۡ زُیِّنَ لَہٗ سُوۡٓءُ عَمَلِہٖ فَرَاٰہُ حَسَنًا ؕ فَاِنَّ اللّٰہَ یُضِلُّ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ ۫ۖ فَلَا تَذۡہَبۡ نَفۡسُکَ عَلَیۡہِمۡ حَسَرٰتٍ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌۢ بِمَا یَصۡنَعُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ بھلا وہ شخص جس کے لیے اس کا برا عمل خوشنما بنا دیا گیا ہو اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگا ہو (ہدایت یافتہ شخص کی طرح ہو سکتا ہے؟) بے شک اللہ جسے چاہتا ہے گمراہی میں ڈال دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے لہٰذا ان لوگوں پر افسوس میں آپ کی جان نہ چلی جائے، یہ جو کچھ کر رہے ہیں یقینا اللہ کو اس کا خوب علم ہے۔

8۔ احساس گناہ کا فقدان سب سے بڑا گناہ ہے، چہ جائیکہ برائی کو اچھائی سمجھا جائے۔ اسی بنیاد پر اللہ تعالیٰ اہل افراد کو ہدایت سے نوازتا ہے اور نا اہل کو ہدایت نہیں دیتا اور اللہ کی طرف سے ہدایت نہ ملنے کی صورت میں ضلالت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول ﷺ سے فرماتا ہے کہ ان کی گمراہی پر اپنی جان گھلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان میں ہدایت کی اہلیت نہیں ہے۔